چین کے شہر ووہان میں سامنے آکر دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل جانے والے 2019 نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے آسٹریلیا کے سائنسدانوں نے اہم پیشرفت کا دعویٰ کیا ہے۔

خیال رہے کہ اس نئے کورونا وائرس کے نتیجے میں اب تک 900 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 40 ہزار سے زائد متاثر ہوچکے ہیں۔

اب تک اس وائرس کی روک تھام کے لیے کوئی ویکسین یا مخصوص طریقہ علاج موجود نہیں (اگرچہ چین میں ایک تجرباتی دوا کی آزمائش کی جارہی ہے)، تاہم سڈنی یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ ان کی دریافت سے موثر طریقہ علاج کو تشکیل دینے کا عمل تیز ہوسکے گا۔

یونیورسٹی کے ماہرین زندہ کورونا وائرس خلیات اگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں، اب تک ڈاکٹروں کے پاس صرف مصنوعی خلیا تتھے جن کو طریقہ علاج کی آزمائش کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔

آسٹریلین سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زندہ خلیات مصنوعی خلیات کے مقابلے میں زیادہ درست ردعمل کا اظہار کرسکیں گے، جس سے ڈاکٹروں کو متاثرہ افراد میں وائرس کی فوری اور درست تشخیص میں مدد مل سکے گی، جو اس کے پھیلاﺅ کی روک تھام میں مدد دے سکے گا۔

اس دریافت سے زیادہ قابل اعتبار طریقہ علاج اور ویکسین بنانے میں بھی مدد مل سکے گی۔

ان سائنسدانوں نے نیوساﺅتھ ویلز میں کورونا وائرس کے مریضوں سے حاصل نمونوں سے زندہ خلیات کو اگانے میں کامیابی حاصل کی۔

اس ریاست کے وزیرصحت براڈ ہزارڈ نے اس بارے میں بتایا کہ جب تک ماہرین مرض سے آگاہی حاصل نہیں کرتے، یعنی وہ اس کا رویہ کیسا ہوگا اور کیسے اپنی نقول بڑھائے گا، اس وقت تک اس کی شناخت کا درست ٹیسٹ کی تشکیل اور روک تھام ممکن نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سائنسدانوں نے وائرس کے جینوم سیکونسنگ سے زندہ وائرس اگانے میں کامیابی حاصل کی۔

سڈنی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈومینک ڈوئیر کا کہنا تھا کہ تحقیقی ٹیم کی پیشرفت بہت اہم ہے اور اب اس دریافت کا ڈیٹا عالمی ادارہ صحت اور عالمی ماہرین سے شیئر کیا جائے گا تاکہ ہم سب مل کر زندگیوں کو بچاسکیں۔

اس سے قبل آسٹریلیا میں پیٹر ڈورتھی انسٹیٹوٹ فار انفیکشن اینڈ امیونٹی کے سائنسدانوں نے 2019 ناول کورونا وائرس کی نقل ایک مریض سے حاصل کیے گئے نمونے کی مدد سے بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔

ڈورتھی انسٹیٹوٹ کے وائرس آئیڈنٹیفکیشن لیبارٹری کے سربراہ جولیان ڈریوس نے ایک بیان میں بتایا 'چینی حکام نے اس ناول کورونا وائرس کا جینوم سیکونس جاری کیا تھا جو اس کی تشخیص کے لیے مددگار ہے، مگر اس حقیقی وائرس کے حصول سے ہمارے پاس ٹیسٹ کے طریقہ کار کے مستند ہونے کی صلاحیت ہوگی اور اس کی حساسیت اور خصوصیات کا موازنہ کرنا ممکن ہوگا، یہ تشخیص کے لیے گیم چینجر ہوگا'۔

انہوں نے بتایا کہ وائرس کی نقل کو آسٹریلیا کی پبلک ہیلتھ لیبارٹریز میں استعمال کرکے دیکھا جائے گا کہ علاج کا کوئی مخصوص طریقہ کار اس پر کام کرتا ہے یا نہیں جبکہ اسے عالمی ادارہ صحت کے یورپ میں کام کرنے والے ماہرین کو بھی بھیجا جائے گا۔

ڈورتھی انسٹیٹوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیک کاٹون نے ایک بیان میں کہا کہ وائرس کے نمونے سے ماہرین مالیکیولر ٹیکنالوجی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اس کا مقابلہ کرسکیں گے۔

تحقیقی ٹیم کا ماننا ہے کہ ان کوششوں سے ایک اینٹی باڈی ٹیسٹ کی تشکیل میں مدد ملے گی جو دکھا سکے گا کہ کسی فرد کا مدافعتی نظام اس وائرس کے خلاف متحرک ہوا ہے یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں