چین میں معمولاتِ زندگی بحال ہونا شروع، کورونا وائرس سے ہلاکتیں 900 سے متجاوز

اپ ڈیٹ 10 فروری 2020
کورونا وائرس سے 40 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں — فوٹو: رائٹرز
کورونا وائرس سے 40 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں — فوٹو: رائٹرز

چین میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 900 سے زائد ہوگئی جبکہ اس وائرس کے پھیلاؤ کو سست کرنے کے لیے توسیعی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے اواخر میں صوبہ ہوبے میں ووہان کی مارکیٹ سے ابھرنے والے کورونا وائرس کے نتیجے میں کم از کم 40 ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا تھا کہ وبا کے مستحکم ہونے کی عارضی علامات موجود ہیں لیکن ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریسَس خبردار کیا کہ بیرون ملک ان لوگوں میں بھی انفیکشنز ہوسکتے ہیں جو کبھی چین نہیں گئے۔

ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریسَس کی جانب سے یہ بیانات ماضی میں صحت کی ہنگامی صورتحال کا تجربہ رکھنے والے بروس آئلورڈ کی قیادت میں عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کی چین روانگی کے بعد سامنے آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 800 سے تجاوز کرگئی

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کے تحت ہوبے میں کئی شہروں کو بند کردیا گیا ہے اور ملک میں نئے قمری سال کی چھٹی کے موقع پر لاکھوں افراد کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے چین بھر میں ٹرانسپورٹ لنکس بند کردیے گئے تھے۔

سرکاری طور پر نئے قمری سال کی چھٹی میں صرف 3 دن کی توسیع کی گئی لیکن کئی شہروں اور صوبوں میں اسے 10 فروری تک بڑھا دیا گیا تھا۔

غیر معمولی اقدامات نے شہروں کو ویرانوں میں تبدیل کردیا ہے جبکہ لوگ گھروں میں موجود ہیں لیکن امکانات ہیں کہ پیر (10 فروری) سے چین میں حالات معمول کی طرف آنا شروع ہوجائیں گے۔

حالیہ دنوں کے مقابلے میں بیجنگ اور شنگھائی میں سڑکوں پر ٹریفک نمایاں تھا اور گانگ ژو شہر نے کہا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ آج سے بحال کی جائے۔

تاہم کام کرنے والے افراد کے لیے اس سب میں توازن پیدا کرنا آسان نہیں تھا۔

بیجنگ میں آج سے دوبارہ کھلنے والے بیوٹی سیلون میں ایک 25 سالہ شخص نے کہا کہ یقیناً ہم پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’جب صارفین اندر آتے ہیں تو ہم پہلے ان کا ٹمپریچر چیک کرتے ہیں پھر ڈِس انفیکٹنٹ استعمال کرتے ہیں اور انہیں ہاتھ دھونے کا کہتے ہیں‘۔

کام میں خلل

تاہم صوبے ہوبے میں لاکھوں افراد اپنی ملازمت پر واپس نہیں لوٹ سکے کیونکہ وبا کا مرکز یہ صوبہ تاحال لاک ڈاؤن کی صورت حال میں ہے۔

یہاں تک کہ قرنطینہ کیے گئے صوبے کے باہر کئی کمپنیاں اپنے عملے کو محدود کررہی ہیں۔

شنگھائی حکومت نے کام کے شیڈول، سینٹرل ایئرسسٹمز کی معطلی، اجتماعی کھانوں سے گریز اور ساتھیوں سے کم از کم ایک میٹر دو رہنے کی تجاویز دی ہیں۔

گزشتہ ہفتے آن لائن آفس کمیونیکیشن ٹول ڈنگ ٹاک نے ویبو پر کی گئی پوسٹ میں کہا تھا کہ 20 کروڑ افراد گھر سے کام کرنے کا پلیٹ فارم استعمال کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین: کورونا وائرس سے پہلا غیر ملکی شہری ہلاک، اموات کی مجموعی تعداد 772 ہوگئی

شنگھائی میں امریکن چیمبر آف کامرس نے کہا کہ ان کی 60 فیصد رکن کمپنیاں گھر سے کام کی پالیسیوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

دوسری جانب چین کے سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ بیجنگ سب وے پر مسافروں کی تعداد معمول کے دنوں کے مقابلے میں 50 فیصد کم تھی۔

علاوہ ازیں بیجنگ میں بڑے شاپنگ مالز صحرا کا منظر پیش کررہے ہیں۔

شنگھائی میں بینک ملازم نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ہاف ڈے کے لیے کام پر جارہے ہیں جبکہ دیگر ملازمین دوپہر کو کام سنبھالتے ہیں، دن کے بقیہ حصے میں عملے کو گھر سے کام کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے ہمارا کام زیادہ مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہمیں ہمارے دفتر میں سسٹمز تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ٹویوٹا سمیت دیگر کمپنیوں نے کام کو مزید ایک ہفتے کے لیے مؤخر کردیا ہے جبکہ ملک بھر میں اسکولز اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔

سفر میں مشکلات

ملازمت پر واپس لوٹنے والے افراد کو سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

چین کے مشرقی شہر ووشی کی انتظامیہ نے کہا کہ کورونا وائرس کے کیسز کی زیادہ تعداد والے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے واپس جانے پر رضامند کیا جائے گا جبکہ سوژوو میں آس پاس کے علاقوں میں جانے والی تمام ٹرانسپورٹ معطل ہے۔

دو روز قبل ٹریول حکام نے کہا تھا کہ ٹرین، روڈ یا جہاز کے ذریعے ایک کروڑ 10 لاکھ افراد نے سفر کیا جو گزشتہ برس کے اسی روز کے مقابلے میں 84 فیصد کم تھا۔

مزید پڑھیں: چین: انسان سے انسان میں منتقل ہونے والے مہلک وائرس کے پھیلنے کی تصدیق

سیاحت کی صنعت میں مایوسی برقرار ہے جبکہ اکثر ممالک نے چین سے آنے والی پروازوں پر بھی پابندی لگادی ہے، بڑی ایئرلائنز نے پروازیں معطل کردی ہیں جبکہ بین الاقوامی اور اندرون ملک ٹور گروپس کو بھی روک دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ نوول کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 03-2002 میں ابھرنے والی وبا سارس سے ہونے والی عالمی ہلاکتوں سے تجاوز کرگئی ہے جب چین کو کیسز چھپانے پر مذمت کا سامنا ہوا تھا۔

تاہم عالمی ادارہ صحت نے اس مرتبہ چین کی جانب سے لے گئے اقدامات کو سراہا ہے جبکہ خبردار کیا ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے کہا کہ بیرون ملک کچھ ایسے لوگوں میں بھی کیسز سامنے آئے جو کبھی چین گئے ہی نہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ہوسکتا ہے کہ ہم ان کیسز کا ایک چھوٹا سا حصہ دیکھ رہے ہوں۔

دوسری جانب ہانگ کانگ ورلڈ ڈریم کروز شپ میں جب عملے کے 1800 افراد میں کورونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آنے کے بعد اس میں 5 روز سے سوار ہزاروں افراد کو جانے کی اجازت دی تھی۔

مذکورہ جہاز میں 19 جنوری سے 24 جنوری کے درمیان 3 چینی مسافروں کو ویتنام لے جایا گیا تھا جن میں بعد میں وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔

قرنطینہ کیے گئے جہاز پر مزید 60 افراد میں وائرس کی تصدیق

علاوہ ازیں دی مرر کی رپورٹ کے مطابق جاپان کے وزیر صحت نے کہا کہ قرنطینہ کیے گئے بحری جہاز میں مزید 60 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

جس کے بعد ڈائمنڈ پرنسز پر سوار مجموعی طور پر 130 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جسے ٹوکیو کے قریب یوکوہاما کی بندرگاہ پر قرنطینہ کیا گیا ہے۔

اس سے قبل حکام نے کہا تھا کہ 3 ہزار 7 سو 11 مسافروں اور عملے میں سے 70 افراد میں وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ 14 روز سے قرنطینہ کیے گئے اس جہاز میں اب تک 3 ہزار 6 سو سے زائد افراد موجود ہیں۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس ایک عام وائرل ہونے والا وائرس ہے جو عام طور پر ایسے جانوروں کو متاثر کرتا ہے جو بچوں کو دودھ پلاتے ہیں تاہم یہ وائرس سمندری مخلوق سمیت انسانوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اس وائرس میں مبتلا انسان کا نظام تنفس متاثر ہوتا ہے اور اسے سانس میں تکلیف سمیت گلے میں سوزش و خراش بھی ہوتی ہے اور اس وائرس کی علامات عام نزلہ و زکام یا گلے کی خارش جیسی بیماریوں سے الگ ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس کی علامات میں ناک بند ہونا، سردرد، کھانسی، گلے کی سوجن اور بخار شامل ہیں اور چین کے مرکزی وزیر صحت کے مطابق 'اس وبا کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے، میں خوفزدہ ہوں کہ یہ سلسلہ کچھ عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے اور کیسز کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کس عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرسکتا ہے؟

وائرس کے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی تصدیق ہونے کے بعد چین کے کئی شہروں میں عوامی مقامات اور سینما گھروں سمیت دیگر اہم سیاحتی مقامات کو بھی بند کردیا گیا تھا جب کہ شہریوں کو سخت تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ متعدد شہروں کو قرنطینہ میں تبدیل کرتے ہوئے عوام کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی اور نئے قمری سال کی تعطیلات میں اضافہ کر کے تعلیمی اداروں اور دیگر دفاتر کو بند رکھا گیا تھا۔

واضح رہے کسی کورونا وائرس کا شکار ہونے پر فلو یا نمونیا جیسی علامات سامنے آتی ہیں جبکہ اس کی نئی قسم کا اب تک کوئی ٹھوس علاج موجود نہیں مگر احتیاطی تدابیر اور دیگر ادویات کی مدد سے اسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

کورونا وائرس سے متعلق مزید اہم خبروں کے لیے یہاں کلک کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں