'حکومت گیس سیس کو انفرا اسٹرکچر پر خرچ نہیں کر رہی'

اپ ڈیٹ 11 فروری 2020
سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی گیس انفراسٹرچکر ڈیولپمنٹ سیس ایکٹ 2015 سے متعلق درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو:اے ایف پی
سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت کی گیس انفراسٹرچکر ڈیولپمنٹ سیس ایکٹ 2015 سے متعلق درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ حکومت گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) سے اکٹھا کیے گئے 2 کھرب 95 ارب روپے کو ریاست کے عام ریونیو میں تبدیل کرچکی ہے جبکہ بہت تھوڑی رقم گیس منصوبوں پر خرچ کی جارہی ہے جو اس لیوی کے نفاذ کا حقیقی مقصد تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے بات کرتے ہوئے سی این جی اسٹیشنز کے نمائندہ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے فنڈز کو عام ریاستی ریونیو سے ملا دیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ '2 کھرب 95 ارب روپے میں سے 48 کروڑ 70 لاکھ روپے ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-انڈیا (تاپی) پائپ لائن منصوبے پر خرچ کیے گئے ہیں'۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس سے گیس کے تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ 'اکٹھے کیے گئے سیس کو آئی پی، تاپی، ایل این جی کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر سمیت دیگر منصوبوں پر خرچ کرنا تھا تاہم اس کا مقصد ختم کردیا گیا اور اب تک حکومت ایل پی جی کے منصوبوں پر خاموش ہے'۔

واضح رہے کہ مخدوم علی خان سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سے وفاقی حکومت کی گیس انفرا اسٹرچکر ڈیولپمنٹ سیس ایکٹ 2015 سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران مؤقف پیش کر رہے تھے۔

دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ ممالک کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری پر اس کا کیا اثر پڑے گا جن کے ساتھ پاکستان نے باہمی تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔

اس پر مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ 'اب تک کوئی خصوصی فائدہ اس فنڈ سے کسی کو نہیں ملا'۔

دوران سماعت وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اخراجات کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی گئی کیونکہ معاملہ کافی عرصے سے عدالت میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کسی سیکٹر میں کسی کو رعایت نہیں دی جارہی، عمر ایوب

ان کا کہنا تھا کہ 2016 سے 2019 تک سیس کے استعمال پر ٹھوس رپورٹ کا ڈرافٹ بنالیا گیا ہے اور اسے جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

جی آئی ڈی سی ایکٹ کے سیکشن 4 کے تحت حکومت سیس کے استعمال کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مالی سال کے ختم ہونے کے 3 ماہ میں پیش کرنے کی پابند ہے۔

گزشتہ سال 25 نومبر کو عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے سوال کیا تھا کہ جی آئی ڈی سی اکٹھا کرنے کے معاملے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے کہ نہیں اور اگر ایسی کوئی رپورٹ پیش نہیں کی جارہی تو حکومت کو چاہیے کہ وہ وضاحت دے کہ ایسی کوئی معلومات پارلیمنٹ میں کیوں نہیں سامنے لائی گئیں۔

حکومت نے وضاحت دی تھی کہ جی آئی ڈی سی کے نفاذ پر سپریم کورٹ سمیت مختلف عدالتوں میں جاری کیسز کی وجہ سے تقریباً 42 کروڑ روپے گزشتہ سال 30 جون سے رکے ہوئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جہاں تک گردشی قرضوں کی بات ہے حکومت کے لیے گیس کی لاگت اور جی آئی ڈی سی کے تحت قابل وصول رقم کا معاملہ حکومت کی جانب سے گردشی قرضوں کا مسئلہ حل کرنے کے بعد حل ہوگا۔

اس کے علاوہ ماضی قریب میں حکومت نے سکوک بانڈ جاری کیے تھے تاکہ گردشی قرضوں کا کچھ حصہ ختم ہوجائے جبکہ گردشی قرضوں کے لیے حکومت 2 کھرب 50 ارب روپے کے ایک اور سکوک بانڈ جاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔

جی آئی ڈی سی کا معاملہ اس وقت نمایاں ہوا جب حکومت نے متنازع آرڈیننس کے ذریعے فرٹیلائزر کی صنعت، آئی پی پیز، توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں، کے الیکٹرک اور سی این جی کے شعبے کے لیے 2 کھرب 10 ارب روپے کے گرانٹ کی پیشکش کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں