بھارت نے ایک مرتبہ پھر دعویٰ کیا ہے کہ دو درجن سے زائد غیر ملکی سفرا مقبوضہ کشمیر کا دورہ کر رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی میں 5 اگست 2019 سے بھارتی فورسز کے خلاف مذمت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مواصلات کا نظام معطل ہے جس کے پیش نظر نئی دہلی غیر ملکی اتحادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال معمول کے مطابق ہے۔

بھارت کے مطابق غیر ملکی سفارتکاروں میں وہ یورپی سفارتکار بھی شامل ہیں جنہوں نے پہلے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی نئی دہلی کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔

مزید پڑھیں: 5 اگست 2019 سے 5 فروری 2020 تک مقبوضہ کشمیر کی آپ بیتی

بھارت کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی، کینیڈا، فرانس، نیوزی لینڈ، میکسیکو، اٹلی، افغانستان اور آسٹریا سمیت دیگر ممالک کے سفارتکار دو روزہ دورے پر ہیں۔

میڈیا کو ایک تصویر پیش کی گئی جس میں مقبوضہ کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں جرمنی کے سفیر والٹر لنڈنر سمیت متعدد ممالک کے نمائندے روایتی کشتی میں سوار ہیں۔

دوسری جانب افغانستان کے ایلچی طاہر قادری نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'ہم سری نگر میں تاجروں، کاروباری خواتین اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے کاروبار اور سیاحت کی صورتحال کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں'۔

مذکورہ دورے سے متعلق ایک ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے منتخب کردہ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں سے سفارتکاروں کی ملاقات کرائی جائے گی۔

علاوہ ازیں سفارتکار بھارتی فوجیوں اور سرکاری عہدیداروں سے بھی ملیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی سفرا نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کی بھارتی دعوت مسترد کردی

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جنوری میں یورپی ممالک کے سفرا نے 'حکومتی سربراہی' میں مقبوضہ کشمیر کے دو روزہ دورے سے متعلق بھارت کی دعوت مسترد کردی تھی۔

یورپی ممالک کے سفیروں نے بھارتی پیشکش مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کے بجائے لوگوں سے ملاقات کی مکمل آزادی دی جائے۔

یورپی سفارت کاروں نے کہا تھا کہ وہ مقبوضہ علاقے کا 'حکومتی سربراہی میں دورہ' نہیں کرنا چاہتے ہیں اور 'بعد میں دورہ کریں گے اور ان لوگوں سے ملیں گے جن سے وہ ملنا چاہیں'۔

گزشتہ ماہ 15 غیر ملکی سفرا نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا لیکن انہیں آزادانہ ملاقاتوں کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایک سفارتکار نے کہا تھا کہ 'حالات بظاہر پرسکون نظر آئے، لیکن ہمیں گاڑی کی کھڑکی سے صورتحال کا اندازہ لگانے کا بہت ہی کم وقت ملا'۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر بھارتی حکومت سے جواب طلب

ایک کشمیری تاجر عبد الرشید نے کہا تھا کہ 'یہ دورے بین الاقوامی برادری کو دھوکا دینے کے ناکام کوشش ہے'۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت 5 اگست 2019 کو ختم کردی گئی تھی جس کے بعد سے وادی میں کرفیو اور مواصلاات کا نظام معطل ہے اور اس پر نئی دہلی کو عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ کی سخت تنقید کا سامنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟

آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے جس کے تحت ریاست کا اپنا آئین تھا اور اسے خصوصی نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی۔

اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیاتی، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکے گا۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔

مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا تھا۔

1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔

اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔

اس آرٹیکل کو کیوں ختم کیا گیا؟

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ان کے اتحادیوں نے آرٹیکل 35 'اے' کو امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف عدالت میں متعدد درخواستیں دائر کی تھیں۔

حکمران جماعت کے ایک سینئر رہنما نے گزشتہ ماہ عندیہ دیا تھا کہ حکومت اس قانون کو ختم کرنے کی تیاری کر رہی ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کی بستیوں کو آباد کیا جا سکے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنی انتخابی مہم میں آرٹیکل 370 اور اس کی شق 35اے کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں