کورونا وائرس: لاک ڈاؤن کی خبریں بے بنیاد ہیں، وزیر اطلاعات سندھ

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2020
وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ میڈیا سے بات کررہے ہیں — فائل فوٹو: ڈان
وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ میڈیا سے بات کررہے ہیں — فائل فوٹو: ڈان

سندھ کے وزیر اطلاعات سید ناصر حسین شاہ نے کورونا وائرس کے مزید کیسز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی لاک ڈاؤن کی افواہوں کو مسترد کردیا۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 'لاک ڈاؤن کی کوئی صورتحال ہے اور نہ ہی کوئی فکر مند ہونے والی بات ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے تمام حفاظتی اقدامات اٹھا رکھے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر چند 'عناصر' عوام سے راشن خریدنے کا کہہ رہے ہیں جو ان کے مطابق 'غیر ضروری' ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس سے 5 ہزار سے زائد ہلاکتیں، متعدد ممالک نے سرحدیں بند کردیں

ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے تمام چیف سیکریٹریز سے درخواست کی ہے کہ ایف آئی اے کو خط لکھیں اور ایسی افواہیں پھیلانے والے تمام افراد کے خلاف سائبر کرائم کے کیسز دائر کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'عوام کو اعتماد ہونا چاہیے کہ حکومت کے پاس تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہے'۔

واضح رہے کہ چین سے سامنے آنے والے کورونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں ایک لاکھ 56 ہزار 169 افراد متاثر اور 5 ہزار 830 ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ اس وائرس سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد 73 ہزار 966 ہے۔

پاکستان میں 26 فروری کو پہلا کیس سامنے آیا تھا جس کے بعد سے اب تک وائرس کے 33 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 2 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ سندھ میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آنے کے ساتھ ہی معاملے سے نمٹنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی تھی جبکہ احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے پہلے 13 مارچ تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں حالات کو دیکھتے ہوئے صوبائی حکومت نے سندھ میں تعلیمی ادارے 31 مئی تک بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے قبل از وقت گرمیوں کی چھٹیاں قرار دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدالت نے کورونا وائرس کیخلاف حکومتی اقدامات کی تفصیلات طلب کرلیں

یہی نہیں بلکہ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ صوبے کے ہر ضلع میں قرنطینہ مرکز قائم کیا جائے۔


پاکستان میں کورونا وائرس

پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا۔

  • 26 فروری کو ہی معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک میں مجموعی طور پر 2 کیسز کی تصدیق کی۔

  • 29 فروری کو ڈاکٹر ظفر مرزا نے ملک میں مزید 2 کیسز کی تصدیق کی، جس سے اس وقت تعداد 4 ہوگئی تھی۔ 3 مارچ کو معاون خصوصی نے کورونا کے پانچویں کیس کی تصدیق کی۔

  • 6 مارچ کو کراچی میں کورونا وائرس کا ایک اور کیس سامنے آیا، جس سے تعداد 6 ہوئی۔

  • 8 مارچ کو شہر قائد میں ہی ایک اور کورونا وائرس کا کیس سامنے آیا۔

  • 9 مارچ کو ملک میں ایک ہی وقت میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے 9 کیسز کی تصدیق کی گئی تھی۔

  • 10 مارچ کو ملک میں کورونا وائرس کے 3 کیسز سامنے آئے تھے جن میں سے دو کا تعلق صوبہ سندھ اور ایک کا بلوچستان سے تھا، جس کے بعد کیسز کی مجموعی تعداد 19 جبکہ سندھ میں تعداد 15 ہوگئی تھی۔

بعد ازاں سندھ حکومت کی جانب سے یہ تصحیح کی گئی تھی 'غلط فہمی' کے باعث ایک مریض کا 2 مرتبہ اندراج ہونے کے باعث غلطی سے تعداد 15 بتائی گئی تھی تاہم اصل تعداد 14 ہے، اس تصحیح کے بعد ملک میں کورونا کیسز کی تعداد 10 مارچ تک 18 ریکارڈ کی گئی۔

  • 11 مارچ کو اسکردو میں ایک 14 سالہ لڑکے میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی، جس کے بعد مجموعی تعداد 19 تک پہنچی تھی۔

  • 12 مارچ کو گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو میں ہی ایک اور کیس سامنے آیا تھا جس کے بعد ملک میں کورونا کے کیسز کی تعداد 20 تک جاپہنچی تھی۔

  • 13 مارچ کو اسلام آباد سے کراچی آنے والے 52 سالہ شخص میں کورونا کی تصدیق کے بعد تعداد 21 ہوئی تھی، بعدازاں اسی روز ڈاکٹر ظفر مرزا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران تفتان میں مزید 7 کیسز سامنے آنے کی تصدیق کی تھی اور کہا تھا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 28 ہوگئی۔

  • 14 مارچ کو سندھ و بلوچستان میں 2، 2 نئے کیسز کے علاوہ اسلام آباد میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا جس کے بعد ملک میں مجموعی کیسز کی تعداد 33 ہوگئی۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

نوٹ: کورونا وائرس سے متعلق مزید خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں