وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس پر آپ یہ نہیں کہیں کہ جس کی جو مرضی ہے وہ کرلیں بلکہ ایک فیصلہ کریں۔

کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس صرف میرا، آپ کا، سندھ کا یہاں تک کہ پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک بین الاقوامی وبا ہے اور اس میں دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی غلطی ہوگی تو اس کا کسی نہ کسی طرح اثر ہم پر ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم اکیلے بیٹھ کر فیصلے نہیں کرسکتے، میں فیصلہ کروں اور اس پر عملدرآمد نہ کریں تو میرا بھی نقصان ہوگا، میں اپنے گھر کے اندر رہ کر خود کو محفوظ سمجھ لوں تو ایسا ہو نہیں سکتا۔

مزید پڑھیں: 'مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس سے اندازہ ہوگیا وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں'

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ یہ سب دیکھتے ہوئے ہم نے 26 فروری کو سندھ میں پہلے کیس کے آتے ہیں کام شروع کیا اور اگلے روز ملاقات کی اور ٹاسک فورس قائم کی جس میں سرکاری اور نجی شعبے، محکمہ صحت و دیگر کے نمائندے شامل کیے۔

مراد علی شاہ کے مطابق ہمارے ماہرین کو بھی اس وبا کا پتہ نہیں تھا بلکہ آپ دنیا کی غلطیوں اور کامیابیوں سے سیکھ کر آگے بڑھ سکتے تھے، اسی سلسلے میں دنیا کی بہترین کوششوں کو اپنایا۔

'لاک ڈاؤں بغیر سوچے سمجھے نہیں کیا'

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم پر الزام تھا کہ ہم نے بغیر سوچے سمجھے لاک ڈاؤن کیا لیکن ہم نے بالکل ایسا نہیں کیا، جو یہ سمجھتا ہے یا کہتا ہے تو وہ اس کو صحیح طریقے سے سنبھالنے کا راستہ بتادے ہم اسی کو اپنائیں گے تاہم اس وبا کو سنبھالنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہے کہ ایکشن کرو اور وائرس سے آگے رہو، جس دن اس وائرس نے آپ کو اوور ٹیک کرلیا تو اس دن آپ پیچھیں رہ جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف اقدامات اٹھانے میں ہم غلطیاں بھی کریں گے اور ہم نے غلطیاں کی بھی ہیں جس پر میں نے مانا ہے تاہم ان ایکشن والی غلطیاں نہیں کروں گا۔

مراد علی شاہ کے مطابق ہم نے سب سے پہلے 2 دن اور پھر 2 ہفتے کے لیے اسکول بند کیے، پھر شاپنگ سینٹر، تفریحی مقامات اور انٹرسٹی ٹرانسپورٹ آہستہ آہستہ بند کی، ہم نے ایسا نہیں کیا کہ ایک ہی رات میں سب بند کردیا۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہت سی افواہیں بھی اڑی لیکن ایسی بحرانی صورتحال میں یہ سب ہوگا اور ہم سب غلطی کریں گے لیکن سب سے بڑی غلطی ہے کہ ہم کچھ نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ 26 فروری کے بعد 13 مارچ کو اسلام آباد میں پہلی ملاقات ہوئی، جس سے متعلق میرا خیال تھا کہ اسے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کریں تاہم روبرو اجلاس میں میں گیا اور سندھ کا مؤقف سامنے رکھا۔

دوران گفتگو وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مذکورہ اجلاس میں، میں نے کہا کہ ہمیں منصوبہ بندی سے ایک لاک ڈاؤن کی جانب جانا چاہیے اور اگر ہم اس دن ایک لاک ڈاؤن کردیتے تو آج ہم بہت بہتر حالت میں ہوتے کیونکہ یہ وائرس تب تک نہیں رکے گا جب تک اس کی ویکسین نہیں تیار ہوجاتی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر گارمنٹ فیکٹری سیل، 2سپروائزر گرفتار

انہوں نے کہا کہ جب تک ویکسین نہیں آئے گی ہم نے اس وائرس کا سامنا کرنا ہے تاہم اس وقت ہم ایسی صورتحال میں ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں کہ ہم کیا کریں، لاک ڈاؤن ختم کریں یا نہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے لاک ڈاؤن پر ہی کہا کہ اسے جاری رکھیں یا ختم کریں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں اور 13 مارچ کو میری رائے نہیں مناسب سمجھی گئی۔

'سندھ اکیلا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا'

انہوں نے کہا کہ میں اکیلا یا سندھ اکیلا کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، یہ عالمی اور قومی مسئلہ ہے اور ہم قومی سطح پر کام کرسکتے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ایسی باتیں ہوئی اور کہا گیا کہ ہر صوبے کی اپنی مرضی ہے تاہم ہم نے ہر چیز کو درگزر کیا، 13 مارچ کو ہم لاک ڈاؤن کی طرف جانے کےلیے کافی اقدامات کرچکے تھے۔

بعد ازاں 21 کو ہمارا سب اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس ہوا اور 22 کو ہم نے لاک ڈاؤن کا آغاز کیا اور پھر تمام صوبوں نے اسی فیصلے کو اپنایا کیونکہ یہ کام اکیلے نہیں ہوسکتا تھا اور میں وفاقی حکومت کا بہت شکر گزار ہوں کہ یکم اپریل کو یہ تجویز دی کہ لاک ڈاؤن کو مزید 2 ہفتے کے لیے بڑھایا جائے اور اسے مزید سخت کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں میں نے اس تجویز کی حمایت کی اور کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، اس اجلاس کے فوری بعد وفاقی وزیر نے اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا، جس پر مجھے خوشی ہوئی اور یہ وفاقی حکومت نے اقدام لیا اور ہم نے اس پر عمل کیا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس اس پر ہوا کہ یکم اپریل کو یہ فیصلہ ہوا اور 3 اپریل کو کچھ صوبوں میں صنعتیں اور دیگر چیزں کھول دی جاتی ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر تھی۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ صوبائی حکومت 10 ہزار کٹس یا ٹیسٹ کا پہلے دن انتظام کرسکتی ہے تو ہمیں وفاقی حکومت سے زیادہ توقع ہوتی ہے۔

ٹیسٹنگ کی صورتحال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم مخصوص طریقے سے ٹیسٹنگ کر رہے ہیں اور 2 روز پہلے ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ صرف سندھ ہمارے طریقہ کار کے مطابق ٹیسٹ کر رہا ہے۔

مزید انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے میں تقریباً 90 فیصد ٹیسٹ مفت ہوئے ہیں جبکہ نجی شعبے کے ٹیسٹ میں بھی زیادہ سندھ حکومت نے فنڈ فراہم کیے ہیں، ہم نے غریبوں کے زیادہ ٹیسٹ کیے ہیں۔

تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ آپ اسی میں خوش ہوں اور اگر آپ کی اور میری زندگی رہی تو ہم ان چیزوں سے بھی نمٹ لیں گے۔

'کیا لاشیں اٹھیں گی تب ایک پیج پر آئیں گے'

انہوں نے کہا کہ اس وقت اتحاد پیدا کریں، میں نے اور اپوزیشن کے تمام لوگوں نے وزیراعظم کو کہا ہے کہ ہم وہ کرنا چاہتے ہیں جو آپ فیصلہ کریں، آپ فیصلہ تو کریں یہ نہ کہے کہ جس کی جو مرضی آئے وہ کرلے۔

مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا کرنا ہے، میں ایک قومی بیانیہ اور قومی ایکشن پلان لے کر آگے چلنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ایک پیج پر تب ہوئے جب آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ ہوا، اس سے پہلے ہر کوئی کچھ اور بات کر رہا تھا اور ہمیں ایک پیج پر آنے سے پہلے لاشیں دیکھنا پڑیں۔

مزید پڑھیں: گرم موسم میں کورونا وائرس کے خاتمے سے جُڑا راز سامنے آگیا

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا ہم اب بھی اسی چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ لاشیں دیکھیں اور ایک پیج پر آئیں، میں وزیراعظم سے درخواست کر رہا ہوں کہ آپ سب کو لے کر چلیں۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مشورہ کریں، میں نے بھی ایک فیصلہ خود سے نہیں کیا بلکہ ماہرین بٹھائے، جنہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کروں تاہم جب لاک ڈاؤن کرنا ہے تو مکمل کرو اور جس جگہ لوگ جمع ہوتے ہیں انہیں منظم کرو۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی موقع نہ دیں کہ آپ لاک ڈاؤن پر سمجھوتہ کریں کیونکہ یہ کسی بھی صورت میں ہمارے لیے بہتر نہیں، لہٰذا میرا ایک ہی پیغام ہے کہ ایک قومی بیانیہ ہو، ہم سب ساتھ مل کر آگے چلیں، یہ نہ کہا جائے کہ صوبے جو کرنا چاہے کرلیں کیونکہ صوبوں کے الگ فیصلے اور تکلیف دہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں مشورہ دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہم ابھی مختلف وجوہات کے باعث اس کے پھیلاؤ کو نہیں روک سکے ہیں، تاہم ہمیں کہا گیا ہے کہ مزید 2 ہفتے سخت لاک ڈاؤن کا کہا گیا ہے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں کیسز کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس لیاری، ملیر، نارتھ کراچی کی گنجان آبادیوں، ضلع شرقی میں کیسز ہیں اور شہری علاقوں میں کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم ہم نے محنت کی ہے اور ہر ڈسٹرک ہسپتال میں آئیسولیشن سینٹر بنایا ہے، ہم نے ایکسپو سینٹر کے ماڈل پر شروع کیا ہے اور یہ ہدایات ہیں کہ چھوٹے اضلاع میں 100 بستروں کا آئیسولیشن سینٹر بنایا جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ وفاقی و صوبائی حکومت صرف اس وائرس کا علاج نہیں کرسکتیں بلکہ اس کا علاج تب ہوسکتا جب پورا پاکستان ایک ہو، ہم سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ہم نے تو اتنی غلطیاں کی ہے کہ آپ کو پتہ بھی نہیں لیکن مجھے یہ خوشی ہے کہ اگر 100 میں سے 50 غلطیاں کی ہیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا تاہم 50 سے فائدہ بہت ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: نئے کیسز سے ملک میں متاثرین 5478، اموات 95 ہوگئیں

انہوں نے کہا کہ مجھ پر جو تنقید کرنی ہے کریں تاہم اگر کوئی خبر اس وائرس کے پھیلاؤ میں مدد دے رہی تو اسے روک دیں کیونکہ اس وقت صرف ایک مقصد ہے کہ ہم اس وائرس سے نجات حاصل کریں۔

اس موقع پر انہوں نے علما کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک یا دو روز میں ایک اجلاس دوبارہ کریں گے کیونکہ ہم نے جو کام کرنا ہے مشورے سے کرنا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ڈاکٹرز کے حوالے سے کہا کہ جس طرح انہوں نے کام کیا اور ذاتی تحفظ کے آلات کی کمی کے باوجود جس طریقے سے بڑے پیمانے پر انہوں نے کام کیا ہے ان کا شکریہ اداکرتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پوری پیرا میڈکس اور فرنٹ لائن پر کام کرنے والوں کو ہم حفاظتی سامان فراہم کریں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

مختیار احمد Apr 13, 2020 11:58am
کیا وزیراعلی سندہ کو ای سی سی اجلاس سے پہلے ٹی پر آکر اپنا موقف دینا ٹھیک ہے ؟کیا ای سی سی صحیح فورم نہی۔؟