پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو توقع ہے کہ موسم گرم ہونے سے نئے نوول کورونا وائرس کی وبا تھم جائے گی یا کم از کم اس کی رفتار سست ہوجائے گی۔

مگر اب امریکا اور چین میں سائنسی تجزیاتی رپورٹس میں اس توقع پر پانی پھیر دیا گیا ہے کہ موسم گرم ہونے سے عام نزلہ زکام اور فلو کی طرح نئے نوول کورونا وائرس کی بیماری کووڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار میں کمی آسکتی ہے۔

امریکا کے یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے ماہرین نے اس حوالے سے کہا 'وہ ممالک جہاں اس وقت موسم گرم ہے جیسے آسٹریلیا اور ایران، وہاں بھی اس وائرس کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے جس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی اور جگہ بھی نمی اور درجہ حرارت میں اضافے سے کیسز کی تعداد میں کمی آنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا'۔

امریکی ماہرین نے کہا کہ تجرباتی تحقیقی رپورٹس میں زیادہ درجہ حرارت، نمی کی سطح میں اضافے اور کوورنا وائرس کی بقا کے دورانیے میں کمی کے تعلق کو لیبارٹری میں دیکھا گیا۔

مگر ماہرین نے زور دیا کہ متعدد عناصر اس وائرس کے ایک سے دوسرے انسان میں پھیلنے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

دوسری جانب چین میں جنوری کی ابتدا سے مارچ کے آغاز تک چین بھر کے 224 شہروں کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا کہ روزانہ کے درجہ حرارت میں اضافے یا نمی سے کورونا وائرس کے پھیلائو کی رفتار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

شنگھائی کی فوڈان یونیورسٹی کی اس تحقیقی ٹیم کے قائد یائی یائو نے کہا 'ہماری تحقیق اس خیال کی حمایت نہیں کرتی کہ زیادہ درجہ حرارت اور سورج کی تیز روشنی سے کووڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار میں کمی آسکتی ہے، درحقیقت یہ خیال کرنا فی الحال قبل از وقت ہے کہ گرم موسم کووڈ 19 کو قابو میں کرسکتا ہے'۔

تاہم تحقیقی ٹیم نے کہا کہ اس حوالے سے متعدد عناصر ممکنہ کردار ادا کرسکتے ہیں، جیسے زیادہ روشن دنوں میں لوگوں میں قدرتی طور پر وٹامن ڈی کی سطح بڑھتی ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے۔

سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں بھی فلو اور عام نزلہ زکام جیسے وائرسز کو مارتی ہیں اور بیشتر ممالک میں گرم موسم میں اسکولوں کی تعطیلات ہوتی ہیں، جس سے بھی وائرسز کی منتقلی کی رفتار سست ہوتی ہے۔

مگر کیا کورونا وائرسز پر بھی یہ کام کرتا ہے؟

اس مقصد کے لیے چینی ٹیم نے چین بھر میں ایک پیچیدہ تجزیہ کیا اور وبائی ڈیٹا کا موازنہ روزانہ کے درجہ حرارت، سورج کی روشنی اور نمی میں تبدیلیوں سے کیا۔

جریدے یورپین ریسپیریٹری جرنل میں شائع تحقیق میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ درجہ حرارت بڑھنے سے کووڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار کی صلاحیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اسی طرح درجہ حرارت اور نمی کو ایڈجسٹ کرنے پر بھی پھیلاؤ کی رفتار پر کوئی اثر نظر نہیں آیا۔

تحقیقی ٹیم نے توجہ دلائی کہ یہ رجحانات دیگر کورونا وائرسز کی وبا یعنی 2012 میں مرس کی وبا سے ملتا جلتا ہے، جہاں یہ وائرس عرب ممالک میں زیادہ درجہ حرارت میں بھی پھیلتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی دیگر امراض جیسے ایبولا یا انفلوائنز کے وبا کی شکل اختیار کرنے والی اقسام بھی ناقابل پیشگوئی ثابت ہوتی ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ تحقیق کے نتائج حتمی نہیں اور اس حوالے سے مزید تحقیق اور زیادہ درجہ حرارت والے علاقوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکی ماہرین بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وبا کے حوالے سے مزید تحقیقی رپورٹس میں اس کے پھیلنے پر موسمیاتی اٖثر پر مزید روشنی ڈالی جاسکے گی۔

مگر اس وقت ایسے شواہد نہ ہونے کر برابر ہیں کہ موسم گرم میں ااس وائرس کے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وائرس کے حوالے سے دنیا بھر میں لوگوں میں مدافعت نہیں، وائرس کے پھیلائو کی رفتار میں کمی آنے پر بھی ایک سے دوسرے مریض میں اس کی منتقلی اس وقت تک سست نہیں ہوگی جب تک احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل نہیں ہوگا۔

دیگر طبی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ نئے نتائج سے ان دعوئوں کی تردید ہوتی ہے کہ اپریل میں درجہ حرارت بڑھنے سے یہ وائرس کرشماتی طور پر غائب ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک لوگوں میں اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا نہں ہوتی، موثر طریقہ علاج اور ویکسین دستیاب نہیں ہوتے، اس وقت تک سماجی دوری ہی اس کے پھیلائو میں کمی لانے میں موثر حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں