عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ جو لوگ کورونا وائرس سے متاثرہ ہو کر صحتیاب ہوگئے ہیں وہ دوبارہ وائرس کی لپیٹ میں نہیں آسکتے۔

اس ضمن میں ڈبلیو ایچ ایو نے اعلامیہ جاری کیا کہ فی الحال اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ جو لوگ وائرس سے صحتیاب ہوئے اور ان کے جسم میں موجود اینٹی باڈیز انہیں دوبارہ انفیکشن سے بچاسکتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: ’پاکستان میں جولائی کے وسط تک کورونا متاثرین کی تعداد 2 لاکھ ہوسکتی ہے‘

غیرملکی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اعلامیے میں کہا گیا کہ 24 اپریل 2020 تک کسی تحقیق میں یہ جائزہ نہیں لیا گیا کہ سارس اور کورونا وائرس کے اینٹی باڈیز کی موجودگی انسانوں میں اس وائرس کے نتیجے میں ہونے والے انفیکشن سے استثنیٰ دیتی ہے۔

واضح رہے متعدد حکومتیں معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ بحال کرنے کی نیت سے اس تجویز پر غور کررہی ہیں کہ صحتیاب ہونے والے کورونا وائرس کے مریضوں کو تصدیق شدہ دستاویزات دے دی جائیں کہ ان کے جس میں وافر مقدار میں ایٹنی باڈیز موجود ہیں اور وہ وائرس سے قطعی طور پر محفوظ ہیں۔

اس ضمن میں ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ ایسی کوئی سائنسی تحقیق نہیں جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ جسم میں وافر مقدار میں اینٹی باڈیز کی موجودگی پر شہریوں کو ’تمام رسک سے محفوظ‘ قرار دے دیا جائے۔

مزیدپڑھیں: ڈبلیو ایچ او کا فنڈ روکنا قابل مذمت، کورونا کے خلاف کوششوں کو دھچکا ہے، چین اور روس

ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ وائرس سے صحتیاب ہوگئے کیونکہ ان کے پاس طبی ٹیسٹ موجود ہیں اور ان پر دوسری مرتبہ وائرس کا حملہ نہیں ہوگا۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ ایسے تمام لوگ پبلک ہیلتھ ایڈوائس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایسی تمام تصدیق شدہ دستاویزات لوکل ٹرانسمیشن کے امکان کو دگنا کردیں گی۔

ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ فی الحال استعمال ہونے والے سیرولوجیکل ٹیسٹ کی درستی اور اعتبار کے بارے میں مزید توثیق کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ عہدیداروں اور شعبے کے ذرائع نے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او، پاکستان میں کورونا وائرس کے علاج کی تیز رفتار ترقی سے متعلق ایک تحقیق کی نگرانی کر رہا ہے جو وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران انسداد ملیریا ادویات کے اثرات کا جائزہ لینے میں مددگار ثابت ہوگی۔

مزیدپڑھیں: ایک ہفتے میں دوسری مرتبہ انسدادِ ملیریا ادویات کی برآمد پر پابندی عائد

یہ پیش رفت پاکستان میں صرف ڈبلیو ایچ او سے منظور شدہ مینوفیکچرنگ سہولت فراہم کرنے والی گیٹز فارما اور لاہور میں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے درمیان اس تحقیقی منصوبوں کے لیے کی گئی شراکت کے بعد دیکھنے میں آئی، جس میں ہائیڈروکسی کلورو کوئن کے کلینیکل ٹرائلز شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں