امریکی صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے جنسی ہراسانی کے الزامات مسترد کردیے

اپ ڈیٹ 01 مئ 2020
جوبائیڈن کو خواتین کے حقوق کا علمبردار بھی سمجھا جاتا ہے — فوٹو: لیڈی گاگا ٹوئٹر
جوبائیڈن کو خواتین کے حقوق کا علمبردار بھی سمجھا جاتا ہے — فوٹو: لیڈی گاگا ٹوئٹر

امریکی جماعت ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار 77 سالہ جوبائیڈن نے خود پر جنسی ہراسانی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں جھوٹا اور اپنے خلاف پروپیگنڈا قرار دے دیا۔

جوبائیڈن کے خلاف متعدد خواتین نے جنسی ہراسانی، نامناسب رویے، ریپ اور جنسی استحصال جیسے الزامات لگا رکھے ہیں، جس میں سے کم از کم 2 خواتین نے میڈیا کے سامنے بھی صدارتی امیدوار کے خلاف الزامات لگائے۔

اگرچہ جوبائیڈن نے پہلے بھی خود پر لگے الزامات کو جھوٹا قرار دے چکے ہیں تاہم حالیہ بیان انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو سے قبل دیئے اپنے وضاحتی بیان میں انہوں نے ایک بار پھر خود پر لگے تمام الزامات کو مسترد کیا۔

امریکی نشریاتی ادارے ایم ایس این بی سی کے مطابق جوبائیڈن نے یکم مئی کو اپنے ٹی وی انٹرویو سے قبل ہی جاری وضاحتی بیان میں خود پر لگے جنسی ہراسانی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے امریکی سینیٹ کے سیکریٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ ان پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے دستاویزات طلب کریں،

جوبائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ ان پر الزام لگانے والی خواتین نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے مذکورہ خواتین کو اس وقت جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جب وہ سینیٹر تھے اور ساتھ ہی خواتین دعویٰ کر رہی ہیں کہ انہوں نے جوبائیڈن کے خلاف اس وقت بھی شکایات درج کروائی تھیں۔

جوبائیڈن نے دلیل دی کہ اگر ان خواتین نے ان کے خلاف شکایت درج کروائی تھی تو ان شکایات کا ریکارڈ نینشل آرکائیو نامی ادارے میں موجود ہوگا اور وہ سینیٹ کے حالیہ سیکریٹری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے سینیٹر کے دور کا ریکارڈ طلب کریں اور دیکھیں کہ ان پر الزام لگانے والی خواتین نے شکایت درج کروائی تھی یا نہیں؟

انہوں نے خود پر لگے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف سازش قرار دیا۔

جوبائیڈن کا یہ بیان ان کی جانب سے اسی نشریاتی ادارے ایم ایس این بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے نشر ہونے سے کچھ گھنٹے قبل سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: جوبائیڈن پر سینیٹ کی سابق ملازمہ کا جنسی زیادتی کا الزام

جوبائیڈن کے اس بیان سے قبل خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپوٹ میں بتایا تھا کہ جنسی ہراسانی اور خواتین کے جنسی استحصال کے الزامات کے حوالے سے دباؤ بڑھنے کے بعد جوبائیڈن مجبور ہوگئیں ہیں کہ وہ خود پر لگائے گئے الزامات پر کھل کر بات کریں۔

ریورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دباؤ بڑھنے کے بعد جوبائیڈن یکم مئی کو ایم ایس این بی پر ایک انٹرویو کے دوران خود پر لگائے گئے تمام جنسی ہراسانی کے الزامات پر کھل کر بات کریں گے۔

تاہم انہوں نے انٹرویو نشر ہونے سے قبل ہی وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے خواتین کے دعوؤں پر تحقیقات کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

جوبائیڈن نے خود پر لگائے گئے الزامات کی دوبارہ وضاحت ایک ایسے وقت میں کی ہے جب کہ ان کی پارٹی کے اہم رہنماؤں کی جانب سے بھی ان کے کردار پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 30 اپریل کو اپنے ایک مختصر بیان میں کہا تھا کہ جوبائیڈن کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر وضاحت کرنی چاہیے، تاہم انہوں نے یہ جوبائیڈن پر لگائے گئے الزامات پر شکوک کا اظہار بھی کیا تھا۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے دباؤ بڑھنے کے بعد جوبائیڈن نے ٹی وی انٹرویو میں خود پر لگائے گئے الزامات کا فیصلہ کیا تاہم ساتھ ہی انہوں نے انٹرویو سے قبل بھی بیان جاری کرکے الزامات کو مسترد کیا۔

جوبائیڈن جنسی ہراسانی کے الزامات کا سلسلہ رواں برس مارچ میں شروع ہوا تھا اور ابتدائی طور پر ان پر سینیٹ کی سابق ملازمہ ٹیرا رائیڈ نے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے اور ان کے الزامات پر خاتون کے بھائی اور ایک دوست نے بھی گواہی دیتے ہوئے انہیں درست قرار دیا تھا۔

بعد ازاں ٹیرا رائٰیڈ نے اپنے الزامات کو دوبارہ بھی دہرایا اور اپریل کے وسط میں انہوں نے میڈیا کے سامنے ایک بار پھر جوبائیڈن پر جنسی ہراسانی اور ریپ کے الزامات لگائے۔

ٹیرا رائیڈ نے اپریل کے وسط میں ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ انہیں 1993 میں جوبائیڈن نے کیپٹل ہل آفس کی عمارت کی بیسمنٹ میں زیادتی کا نشانہ بنایا، اس سے قبل مارچ میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ جوبائیڈن نے انہیں دبوچا، ان کا استحصال کیا اور ان کے جسم پر جنسی انداز میں ہاتھ پھیرے۔

مذکورہ خاتون نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے جوبائیڈن کے خلاف اس وقت بھی دفتر میں بھی شکایت درج کروائی تھی اور اب جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اگر مذکورہ خاتون نے ان کے خلاف شکایت درج کروائی تھی تو وہ ریکارڈ میں ہوگی اور سینیٹ کے سیکریٹری نیشنل آرکائیو سے اس وقت کا ریکارڈ طلب کرکے دستاویزات کا جائزہ لیں۔

مزید پڑھیں: جو بائیڈن کا منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ کے غلط فیصلے کو تسلیم کرنے کا اعلان

مذکورہ خاتون کے علاوہ جوبائیڈن پر امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کی ایک 43 سالہ خاتون نے بھی جنسی ہراسانی کے الزامات لگا رکھے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق کنیکٹیکٹ کی 43 سالہ خاتون ایمی لاپوز نے بھی اپریل کے آغاز میں جوبائیڈن پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صدارتی امیدوار نے انہیں ایک دہائی قبل استحصال کا نشانہ بنایا۔

مذکورہ خاتون نے ابتدائی طور پر جوبائیڈن کے خلاف ایک فیس بک پوسٹ میں الزامات لگائے اور دعویٰ کیا کہ صدارتی امیدوار نے انہیں 2009 میں استحصال کا نشانہ بنایا۔

ایمی لاپوز کا کہنا تھا کہ 2009 میں ایک سیاسی فنڈریزنگ ایونٹ کے دوران جوبائیڈن نے انہیں بالوں اور گردن سے پکڑ کر انہیں کے چہرے کو پیچھے کیا اور انہیں محسوس ہوا کہ بس کچھ ہی دیر میں جوبائیڈن انہیں لبوں پر بوسہ دینے والے ہیں۔

خاتون نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ اگرچہ جوبائیڈن نے جنسی طور پر ان کا استحصال نہیں کیا مگر انہوں نے ان کا استحصال کیا، جس سے انہیں صدمہ پہنچا۔

مذکورہ دونوں خواتین کے علاوہ بھی جوبائیڈن پر دیگر خواتین نے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کر رکھے ہیں، تاہم انہوں نے تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں