مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے انگلش پریمیئر کے سربراہ کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ سعودی شاہی خاندان کو انگلش فٹبال کلب فروخت نہ کیا جائے اور وہ اس سلسلے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔

برطانوی خبررساں ادارے انڈیپینڈنٹ کے مطابق انگلش فٹبال کلب نیو کاسل یونائیٹڈ کو سعودی ولی عہد کی زیر نگرانی کام کرنے والا سعودی انویسٹنٹ فنڈ خریدنے والا ہے اور اس سلسلے میں معاہدہ بھی جلد متوقع ہے۔

یاد رہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018 کو ترکی میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے قتل کی خبر آئی تھی۔

امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے حوالے سے 17 نومبر 2018 کو امریکی ذرائع ابلاغ میں رپورٹس آئی تھیں کہ ایجنسی کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے حکم پر ہوا۔

جمال خاشقجی کی منگیتر حاطس چنگیز نے اپنے وکیل کے توسط سے انگلش پیرمیئر لیگ کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ ماسٹرز کو خط لکھ کر اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر محمد بن سلمان کو کلب خریدنے کی اجازت دی گئی تو اس سے پریمیئر لیگ کا وقار مجروح ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ولی عہد یہ کلب خرید کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنے ملک کی خراب ساکھ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی عرب گزشتہ چند برسوں میں ڈبلیو ڈبلیو ای ریسلنگ اور فارمولا ای جیسے مقابلے منعقد کرا چکا ہے اور اب وہ اپنے ملک میں انتھونی جوشوا اور اینڈی روئز کے درمیان ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ کے ساتھ ساتھ مستقبل قریب میں فارمولا ون گرینڈ پرکس کی میزبانی کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔

محمد بن سلمان کی زیر سربراہی چلنے والے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کی نیوکاسل سے بات چیت جاری ہے جس کے تحت وہ 30 کروڑ پاؤنڈ میں کلب کے 80فیصد حصص کے مالک بن جائیں گے۔

رپورٹس کے مطابق اس سلسلے میں تمام تر معاملات طے پا چکے ہیں اور بس اس پر دستخط ہونا باقی ہیں جس کے بعد اس کے 10 فیصد حصص پی سی پی کیپیٹل پارٹنرز کے پاس جائیں گے جبکہ بقیہ موجودہ مالک مائیک ایشلے اور دیگر میں تقسیم ہوں گے۔

حاطس چنگیز کے خط میں پریمیئر لیگ کو خبردار کیا گیا کہ اگر سعودی انویسٹمنٹ فنڈ کو نیو کاسل یونائیٹڈ خریدنے کی اجازت دے دی گئی تو اس سے وہ جمال خاشقجی کے قتل کو پس پشت ڈالنے کے منصوبے کا حصہ بن جائیں گے۔

خط میں ان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حاطس چنگیزی چاہتی ہیں کہ آپ اور پریمیئر کے بورڈ کے اراکین سعودی شہزادے کو اس کلب کو خریدنے سے روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں جبکہ چنگیزی کے منگیتر کے بہیمانہ قتل کے بعد اس کے طرح کے اقدامات اٹھانا آپ کا حق بنتا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ کوئی بھی شخص جس نے اس طرح کے بھیانک کام کیے ہوں اس کی انگلش فٹبال اور پریمیئر لیگ میں کوئی جگہ نہیں بنتی اور یہ اقدام پریمیئر لیگ کے چارٹر کی روح کے عین منافی ہو گا۔

اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ محمد بن سلمان جیسے سنگین جرائم کرنے والے شخص کے انگلش پریمیئر لیگ کا حصہ بننے سے انگلش پریمیئر لیگ کی ساکھ خراب ہو گی اور وہ یہ کلب خرید کر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے اور جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جمال خاشقجی کا قتل: کب کیا ہوا؟

سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے۔

تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔

تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔

سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔

تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔

اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔

اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔

17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔

اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔

بعد ازاں سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے 'قربانی کا کوئی بکرا' ڈھونڈ ہی لیں گے۔

دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں