ٹیکنالوجی ادارے متنازع آن لائن قوانین واپس لینے کے خواہاں

اپ ڈیٹ 06 جون 2020
قوانین پر مشاورت کا پہلا اجلاس 4 جون کو ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی
قوانین پر مشاورت کا پہلا اجلاس 4 جون کو ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: حکومت کی جانب سے سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) ایکٹ 2002 پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے باضابطہ آغاز کے ایک دن بعد ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے حکومت کو اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔

اے آئی سی انٹرنیٹ کے معتبر اور بڑے اداروں، جن میں فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، ایمازون، ایئر بی این بی، ایپل، بکنگ ڈاٹ کام، ایکسپیڈیا گروپ، گریب، لنکڈن، لائن، رکوٹین اور یاہو (اوتھ) شامل ہیں، کا مشترکہ گروپ ہے۔

رواں برس مئی میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اپنی ویب سائٹ پرمعطل قوانین کو بہتر بنانے کے لیے عوام اور اسٹیک ہولڈرز سے رائے طلب کرنے کے لیے سروے جاری کیا تھا۔

حکومت نے 4 جون کو میڈیا نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ارکان کے ساتھ مشاورتی میٹنگ منعقد کی تھی، جس پر متعدد گروپوں نے بائیکاٹ کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ متنازع قوانین کو واپس لیا جائے۔

اے آئی سی کی جانب سے پی ٹی آئی کو 15 صفحات پر مشتمل تجاویز میں ادارے کو مشورہ دیا گیا تھا کہ متنازع قانون سے متعلق ابتدائی سوالنامے کی روشنی میں مشاورت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔

ادھر پی ٹی اے نے بھی تصدیق کی کہ انہیں اے آئی سی کی تجاویز موصول ہو چکی ہیں اور وہ فی الحال ان کا جائزہ لے رہے ہیں۔

پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ مشاورتی کمیٹی آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کو بھی مشاورت میں شامل کرے گی اور ان کی قیمتی آرا کو تجاویز میں شامل کیا جائے گا، کیوں کہ مشاورتی کمیٹی وسیع مشاورت پر یقین رکھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے متنازع آن لائن قوانین پر مشاورت شروع کردی

اے آئی سی نے اپنی رپورٹ میں پی ٹی اے کی تعریف کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کا یہ قدم قابل تحسین ہے جس میں وہ بار بار کہہ چکی ہے کہ متنازع قوانین معطل ہیں۔

اسی رپورٹ میں کہا گیا کہ چوں کہ متنازع قوانین کو وفاقی کابینہ نے منظور کیا تھا، لہٰذا انہیں واپس بھی اسی طریقے سے ہی کیا جائے تاکہ آسانی سے بہت سارے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ نئی مشاورت کا آغاز ہوسکے۔

مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی اے کے چیئرمین عامر عظیم باجوہ نے واضح طور پر کہا کہ مذکورہ قوانین عملی طور پر نافذ نہیں ہوئے تھے اور انہیں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کی ویب سائٹ سے بھی ہٹالیا گیا تھا، کیوں کہ انہیں عمل درآمد کے لیے منظور نہیں کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری، جو مشاورتی کمیٹی کی بھی رکن ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ معطل قوانین پر بات کی جا رہی ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ ہم نے تمام ڈیجیٹل رائٹس گروپس اور اسٹیک ہولڈرز کو تجاویز اور بلیوپرنٹ ٹیبل پر پیش کرنے کو کہا ہے، ان کی جانب سے مناسب تجاویز پر عمل کیا جائے گا اور کسی نہ کسی حد تک تجاویز پر اتفاق کرلیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کو ایشیائی تنظیم کا خط، سوشل میڈیا قواعد پر انتباہ

کمیٹی کے رکن بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ مشاورتی کمیٹی کے بعد تشکیل دی گئی نئی تجاویز پروفاقی کابینہ نئے قوانین منظور کرے گی۔

اے آئی سی نے اس ضمن میں پی ٹی آئی کو تجویز دی کہ کوشش کی جائے کہ اس حوالے سے ایسے قوانین نہ بنائے جائیں جو اس کے اپنے قوانین سے ملتے جلتے ہوں۔

تنظیم نے نشاندہی کی کہ پی ٹی اے نے اپنی ویب سائٹ پر ابتدائی قوانین کا خاکہ پیش کرتے ہوئے دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ای سی اے پیکا) 2016 کے سیکشن 37 (2) کا حوالہ بھی دیا ہے۔

اس ضمن میں سیکشن 37 (1) کے تحت قانون سازی کا تقاضا کیا گیا، جو مخصوص حالات میں کسی بھی مواد کو روکنے یا اسے بلاک کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

اے آئی سی کی سفارشات میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ مکمل طور پر نئی اتھارٹی کا قیام، جسے نیشنل کوآرڈینیٹر کہا گیا ہے، وہ پیکا 2016 میں دیے گئے اختیارات سے بالاتر ہوگا۔

تنظیم نے اس ضمن میں ایک وسیع سروے کو بھی شائع کرتے ہوئے ڈیجیٹل فرمز، پی ٹی اے اور حکومت کو تجویز دی کہ مشاورت کے لیے وسیع پیمانے پر کام کیا جائے، تنظیم کے اس سروے میں مجوزہ قوانین کا نمائشی مسودہ بھی شامل کیا گیا جب کہ حکومت کے مجوزہ قوانین پر نقطہ چینی کا خاکہ بھی دیا گیا۔


یہ رپورٹ روزنامہ ڈان میں 6 جون کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں