وزیراعظم عمران خان کو ایشیائی تنظیم کا خط، سوشل میڈیا قواعد پر انتباہ

اپ ڈیٹ 17 فروری 2020
اے آئی سی حکومتی قوانین کو معشیت کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
اے آئی سی حکومتی قوانین کو معشیت کے لیے بھی نقصان دہ قرار دیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے وزیراعظم عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں انہیں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے حکومت کے نئے قواعد سے پاکستان میں ڈیجیٹل کمپنیوں کو کام کرنا ‘انتہائی مشکل ہوجائے گا’۔

اے آئی سی کی جانب سے 15 فروری کو لکھے گئے خط کی نقول وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھاٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) عامر عظیم باجوہ کو بھی بھیج دی گئی ہیں۔

وزیراعظم کو اے آئی سی نے یہ خط سوشل میڈیا کے حوالے سے حکومت کے نئے قواعد کے جواب میں لکھا گیا ہے جس کے مطابق کسی قسم کی دستاویز یا معلومات کو جاری کرتے وقت متعلقہ تحقیقاتی ادارے کو دکھائی جائیں گی اور ان میں شرائط پر عمل کرنے میں ناکامی کی صورت میں 50 کروڑ تک جرمانہ کیا جائے گا۔

اے آئی سی کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے خط میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ قواعد پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کو بری طرح اپاہج کردیں گے’۔

مزید پڑھیں:حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

انہوں نے کہا کہ ‘اے آئی سی کے اراکین اس بات کے معترف ہیں کہ پاکستان میں صلاحیت ہے لیکن اچانک ان قواعد کے اعلان سے حکومت پاکستان کے ان دعووں کو جھٹلا دیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کاروبار اور سرمایہ کاری کے لیے کھلا ہوا ہے’۔

حکومتی قوانین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت بنائے گئے قواعد سے درحقیقت اے آئی سی اراکین کو پاکستان میں صارفین اور کاروبار کے لیے اپنی خدمات پہنچانے کے لیے انتہائی مشکل ہوگا’۔

اے آئی سی اراکین میں نمایاں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی کمپنیاں شامل ہیں جن میں فیس بک، ٹویٹر، گوگل، ایمیزون، ایپل، بکنگ ڈاٹ کام، ایکسپیڈیا گروپ، گریب، لنکڈ ان، لائن ریکوٹین اور یاہو بھی شامل ہے۔

گروپ کی جانب سے نشان دہی کی گئی کہ کسی اور ملک میں اس طرح کے ‘یک طرفہ قوانین’ کا اعلان نہیں کیا گیا اور پاکستان غیر ضروری طور پر پاکستانی صارفین اور انٹرنیٹ اکانومی کے بے پناہ مواقع کے حامل کاروبار کو غیر ضروری طور پر نظرانداز کرکے عالمی طور پر اس میدان سے منہا ہونے کا خطرہ مول رہا ہے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت یا ان کا نقطہ نظر جانے بغیر قوانین کی منظوری دی ہے اور بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکستان میں اپنے کاروبار کے منصوبے پر نظر ثانی کا باعث بن گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کا سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان

اے آئی سی نے کہا کہ ‘جس طرح ان قوانین کو منظور کیا گیا ہے وہ بین الاقوامی کمپنیوں کو پاکسان میں قانونی ماحول سے متعلق اور ملک میں اپنی سرگرمیوں کی خواہش پر دوبارہ جائزہ لینے کی وجہ بن رہے ہیں’۔

وزیراعظم کے نام خط میں زور دیتے ہوئے انٹرنیٹ کمپنی نے کہا ہے کہ ‘ہم حکومت پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ نئے قواعد بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر مکمل عوامی مشاورت کو یقینی بنائیں’۔

‘قانون سازی کے خلاف نہیں’

اے آئی سی کا کہنا تھا کہ وہ سوشل میڈیا کے حوالے قانونی سازی کے خلاف نہیں ہیں جبکہ پاکستان میں پہلے ہی آن لائن بیانات پر وسیع قانونی فریم ورک موجود ہے لیکن بدقسمتی سے انفرادی سطح پر اظہار رائے کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ نئے قوانین جیسے اہم مسائل کو سلجھانے کے لیے ناکافی ہیں۔

خط میں ان کا کہنا تھا کہ نہ تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ اور نہ ہی پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 میں قانون کے ذریعے کوئی ضمانت نہیں دی گئی ہے، اس کے برعکس پیکا مصالحت کاری یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بحفاظت افعال کو تحفظ دیتا ہے۔

اے آئی سی نے خط کے آخر میں کہا ہے کہ ‘ہم حکومت پاکستان پر زور دیتے ہیں کہ وہ پاکستان کی معیشت پر ان قوانین کے باعث پڑنے والے غیرمتوقع اثرات کا جائزہ لیں’۔

دوسری جانب حکومت کا اصرار ہے کہ نئے قواعد کا مقصد اظہار پر قدغن لگانا نہیں ہے بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا کے اداروں نے اس پر تحفظات کا اظہار کردیا تھا۔

اے آئی سی نے رواں ہفتے کے اوائل میں بھی ایک بیان میں حکومتی قواعد پر اسی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

بیان میں کہا تھا کہ ‘ایشیا انٹرنیٹ کولیشن کو حکومت پاکستان کی جانب سے اسٹیک ہولڈرز اور صنعت سے مشاورت کے بغیر وسیع پیمانے پر آن لائن قواعد جاری کرنے پر تشویش ہے’۔

خیال رہے کہ چند روز ڈان اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے گزشتہ ماہ ہی ملک میں سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی تھی۔

مزید پڑھیں:حکومت کو سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ان اصولوں کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں کسی تفتیشی ادارے کی جانب سے کوئی معلومات یا ڈیٹا مانگنے پر فراہم کرنے کی پابند ہوں گی اور کوئی معلومات مہیا نہ کرنے کی صورت میں ان پر 5 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد ہوگا۔

کابینہ سے منظور ہونے والے قواعدمیں کہا گیا تھا کہ ان قواعد و ضوابط کے تحت اگر کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو تحریری یا الیکٹرونک طریقے سے’غیر قانونی مواد‘ کی نشاندہی کی جائے گی تو وہ اسے 24 گھنٹے جبکہ ہنگامی صورت حال میں 6 گھنٹوں میں ہٹانے کے پابند ہوں گے۔

نئے قواعد میں کہا گیا تھا کہ ان کمپنیوں کو آئندہ 3 ماہ کے عرصے میں عملی پتے کے ساتھ اسلام آباد میں رجسٹرڈ آفس قائم کرنا ہوگا۔

اس کے ساتھ ان کمپنیوں کو 3 ماہ کے عرصے میں پاکستان میں متعلقہ حکام سے تعاون کے لیے اپنا فوکل پرسن تعینات کرنا اور آن لائن مواد کو محفوظ اور ریکارڈ کرنے لیے 12 ماہ میں ایک یا زائد ڈیٹا بیس سرورز قائم کرنا ہوں گے۔

سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب احمد صدیقی نے اس حوالے سے رابطہ کرنے پر ڈان کو بتایا تھا کہ ان قواعد و ضوابط کی کابینہ نے 28 جنوری کو ہونے والے اجلاس میں منظوری دی تھی اور رائے دی تھی کہ کسی نئی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پاکستان ٹیلی کمیونکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 اینڈ پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ، 2016 کی ماتحت قانون سازی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں