حکومت نے متنازع آن لائن قوانین پر مشاورت شروع کردی

اپ ڈیٹ 03 جون 2020
پہلا مشاورتی اجلاس 4 جون کو طے ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
پہلا مشاورتی اجلاس 4 جون کو طے ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: ایک طرف جہاں انسانی حقوق کے نمائندوں اور تنظیموں نے حکومت کے ساتھ سٹیزن پروٹیکشن (اگینسٹ آن لائن ہارم) ایکٹ 2002 پر بات کرنے کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، وہیں حکومتی عہدیداروں نے اس معاملے پر ابتدائی مشاورت کا لائحہ عمل تیار کرلیا۔

اس حوالے سے ڈان کو بھیجے گئے دعوت نامے میں 20 مئی کی تاریخ درج ہے، جس میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم کی ہدایات پر مذکورہ معاملے پر وسیع پیمانے پر مشاورت کا عمل شروع کردیا گیا ہے اور اس ضمن میں عمل درآمد کو روکتے ہوئے مشاورت اور مشوروں کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔

دعوت نامے کے مطابق ایکٹ پر پہلا مشاورتی اجلاس 4 جون کو ہونا ہے۔

مذکورہ ایکٹ کی کابینہ سے منظوری کے بعد رواں برس فروری میں سوشل میڈیا پر اس پر سخت تنقید کی گئی تھی جس کے بعد وزیر اعظم نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا اعلان کیا تھا۔

پی ٹی اے چیئرمین کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری آئی ٹی اعزاز اسلم ڈار، ڈیجیٹل پاکستان کی سربراہ تانیہ ایدروس اور ان کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد، انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری اور بیریسٹر علی ظفر شامل ہیں۔

گزشتہ ماہ مئی کے آغاز میں پی ٹی اے نے اپنی ویب سائٹ پر ایکٹ کے متنازع قوانین کو بہتر بنانے کے لیے اپنی ویب سائٹ پر ایک سوالنامہ جاری کرتے ہوئے اسٹیک ہولڈرز اور عوام سے رائے طلب کی تھی۔

سوالنامے میں 10 اہم سوال شامل تھے، جن کے جواب ہاں یا ناں میں دینے تھے، تاہم ہر جواب کے ساتھ ایک باکس بھی دیا گیا تھا اور صارف کو اپنی پسند کے مطابق کوئی نہ کوئی تجویز دینے کا آپشن بھی دیا گیا تھا۔

سروے میں شامل کیے گئے مقاصد میں پی ٹی اے کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 37 کے تحت پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کو استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ سے شہریوں اور ریاست کی حفاظت کے لیے متنازع اور اشتہال انگیز مواد کو ہٹانے کی بات بھی شامل تھی، جب کہ اس ضمن میں اظہار رائے کی آزادی کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے سوشل میڈیا ریگولیٹ کرنے کے قواعد و ضوابط کی منظوری دے دی

اس حوالے سے پی ٹی اے نے ڈان کو بتایا کہ مشاورت کا عمل عام ہوگا اور اس میں ہر کسی کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کی آزادی ہوگی جب کہ کمیٹی انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی مشاورت میں مصروف ہے۔

سماجی گروپوں کا مشاورت کا حصہ بننے سے انکار

تاہم دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں نے اس طرح کی کسی بھی مشاورت کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔

اس سے قبل رواں برس مارچ میں 100 سے زائد انسانی حقوق کے اداروں اور انفرادی شخصیات نے حکومت کے ساتھ اس ضمن میں اس وقت تک کسی طرح کی بھی مشاورت کرنے سے انکار کردیا تھا جب تک کہ حکومت اس کو منسوخ نہیں کرتی۔

دی گلوبل نیٹ ورک انیشیٹو (جی این آئی) نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذکورہ قوائد کو واپس لے کر اس ضمن میں مشاورت کے لیے قانون سازوں، سول سوسائٹی اور سوشل میڈیا کمپنیوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ شفاف مشاورت کرے۔

اس ہفتے شروع ہونے والی مشاورت کے حوالے سے انسانی حقوق کے بعض گروپوں نےاس بات پر افسوس کا اطہار کیا کہ مشاورتی عمل میں سول سوسائٹی کے عام مطالبات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو قوائد کی خلاف ورزی ہے۔

بائٹس فار آل کے کنٹری ڈائریکٹر شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کابینہ کی جانب سے منظور کیے گئے قوائد آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہیں اور وہ غیر قانونی ہیں، ان قوائد پر کسی طرح کی بھی مشاورت بے نتیجہ ہوگی اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ان قوائد کو واپس لیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ علاوہ ازیں اسی معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی زیر سماعت ہے۔

رواں برس فروری میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے کی آخری سماعت میں وفاقی حکومت، وزارت قانون اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے جواب طلب کرتے ہوئے حکومت کو میڈیا ریگولیشن کے قوائد کو نافذ کرنے سے روک دیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کو ایشیائی تنظیم کا خط، سوشل میڈیا قواعد پر انتباہ

شہزاد احمد نے پی ٹی اے کی جانب سے دعوت نامہ ملنے کے بعد کہا کہ اب ان کی توقعات عدالتوں سے ہیں اور انہیں امید ہے کہ عدالتیں آن لائن اور آف لائن بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی۔

پی ٹی اے چیئرمین اور مشاورتی کمیٹی کے نام لکھے گئے کھلے خط میں میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے لکھا ہے کہ جس طرح مشاورتی عمل کو آگے بڑھایا گیا ہے، اس پر ادارے کو سخت مایوسی ہوئی۔

اس خط میں مزید کہا گیا ہے کہ مشاورت کی واضح تشریح کیے بغیر مشاورت کا سلسلہ شروع کرنا فطری طور پر غیر جمہوری، قانونی طور پر قابل اعتراض اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوگا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پہلے قوائد کو واپس لیا جائے، پھر مشاورت ہوگی۔

بولو بھی کی فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ یہ سارا عمل اخلاص کے ساتھ نہیں ہو رہا، کابینہ کی منظوری کے بعد بنیادی طور پر قوائد نافذ العمل ہیں، وزیر اعظم کابینہ کو ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ پی ٹی اے کو اختیار دے سکتے ہیں، کسی بھی اس عمل کو قانونی حیثیت نہیں دینی چاہیے، قوائد کو واپس لیا جانا چاہیے ناکہ ان پر کوئی مشاورت کی جائے۔


یہ رپورٹ 3 جون کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں