کراچی: 'نیند کی گولیاں' نہ ملنے پر پولیس اہلکار کی ڈاکٹر پر 'فائرنگ'

فائرنگ سے ڈاکٹر زخمی ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی
فائرنگ سے ڈاکٹر زخمی ہوا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی میں قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) کی حدود میں پولیس اہلکار کی مبینہ فائرنگ سے ایک ڈاکٹر زخمی ہوگیا۔

پولیس کے مطابق این آئی سی وی ڈی کی ایمرجنسی میں سی ٹی ڈی سول لائنز میں تعینات پولیس کانسٹیبل کامران نے فائرنگ کی جس سے ڈاکٹر فہد حسین زخمی ہوگئے تاہم ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔

واقعے کی ابتدائی تحقیقات کے حوالے سے پولیس کا کہنا تھا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ پولیس اہلکار نے ڈاکٹر فہد پر حملہ گزشتہ شب دوسرے ڈاکٹر کی جانب سے نیند کی ادویات نہ دینے پر کیا کیونکہ ڈاکٹر نے مشورہ دیا تھا کہ اس طرح کی ادویات لینا اس کے لیے ٹھیک نہیں۔

دوران تفتیش ملزم کامران نے ڈاکٹرز پر الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ 'میری طبیعت بہت خراب تھی اور میں ایمرجنسی میں ہسپتال آیا تھا، پہلے ماسک پھر لائن میں لگنے کے معاملے پر کچھ تلخ کلامی ہوئی۔'

انہوں نے کہا کہ 'مجھے ڈاکٹر پرکاش نے گالیاں دے کر کہا لائن میں لگو، میں نے مجھ سے آگے نمبر پر موجود وہیل چیئر والے سے منتیں کی، وہیل چیئر والا راضی ہوگیا اور کہا پہلے آپ خود کو دکھا دو۔'

ان کا کہنا تھا کہ 'ڈاکٹر پرکاش نے مجھے پھر گالیاں دیں جس پر میں وہاں سے واپس چلا گیا لیکن جات ہوئے ڈاکٹر کو دھمکی دی کہ میں کل آکر تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔'

کامران نے کہا کہ ڈاکٹرز کی بے حسی کی وجہ سے سزا دینا چاہتا تھا، میں گھر سے پستول میں پانچ گولیاں ڈال کر نکلا تھا اور ڈاکٹر کو زخمی کرنا چاہتا تھا، جب وہ نہ ملا تو ڈاکٹر فہد پر گولیاں چلا دیں، جبکہ پولیس کو اپنی گرفتاری خود دینے کا کہا اور کہیں فرار نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: کراچی میں کورونا وائرس سے ایک اور ڈاکٹر کی موت

اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے سینئر عہدیدار راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ پولیس کانسٹیبل گزشتہ 15 سے 20 روز سے سینے میں درد اور بخار میں مبتلا ہے جبکہ اس نے ضیاالدین ہسپتال سے ٹیسٹ کروایا تھا جہاں اس میں ٹائی فائڈ کی تشخیص ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں منگل کی رات کو قومی ادارہ برائے امراض قلب جہاں سیکیورٹی گارڈ نے اسے اندر جانے سے روکا اور کہا کہ ہسپتال میں داخل ہونے سے قبل ماسک پہننے کے ایس او پی پر عمل کریں، جس کے بعد اس کی گارڈ سے کچھ بحث ہوئی تاہم بعد ازاں وہ کہیں سے ماسک لے کر ایمرجنسی میں داخل ہوگیا۔

واقعے کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی میں مبینہ طور پر اس نے ڈاکٹر سے نیند کی گولیاں مانگی کیونکہ وہ گزشتہ 3 روز سے سویا نہیں تھا۔

راجا عمر خطاب نے دعویٰ کیا کہ وہاں انہیں ڈاکٹر کی جانب سے ادویات نہیں دی گئی، جس کے بعد وہ واپس گھر آیا اور اگلے روز بدھ کی رات کو موٹر سائکل پر وہاں گیا اور مبینہ طور پر اسی ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھے جس کے بعد کانسٹیبل نے دوسرے ڈاکٹر فہد پر فائر کیا اور فرار ہوگیا۔

سی ٹی ڈی عہدیدار کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد ملزم سی ٹی ڈی سول لائنز آیا جہاں اس نے عجیب انداز اپنایا اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس نے ڈاکٹر پر فائر کیا۔

راجا عمر خطاب کا کہنا تھا کہ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو کہا کہ اسے حراست میں لیں جس کے بعد سی ٹی ڈی پولیس نے تفتیش کے لیے کانسٹیبل کو صدر پولیس کے حوالے کردیا۔

علاوہ ازیں ملزم کے گھر والوں اور ساتھیوں کی باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ پولیس اہلکار 'جذباتی طور پر پریشان' تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا ڈاکٹر فرقان کی موت سے متعلق تحقیقات کا حکم

دوسری جانب ڈاکٹر فہد کو پاؤں میں 2 گولیاں لگی اور ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

پولیس نے زخمی ڈاکٹر کی شکایت پر پولیس اہلکار کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 324 (اقدام قتل) کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔

شکایت کنندہ نے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ وہ ایمرجنسی وارڈ میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا کہ جب ایک شخص آیا اور ان سے گزشتہ رات میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹر کے بارے میں پوچھا۔

ڈاکٹر فہد کے مطابق انہوں نے مذکوہ شخص کو کہا وہ نہیں جانتے کہ وہ ڈاکٹر کہا ہیں جس پر ملزم نے الزام لگانا شروع کردیا کہ 'تم (ڈاکٹرز) بے ایمان ہوتے ہو اور میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا'، اور پھر میرے دونوں پاؤں پر فائرنگ کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں