حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 26 جون 2020
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے، حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے نجی دوا ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں ادویات سازوں کی بہت بڑی مافیا ہے، کیا وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟

مزید پڑھیں: 'دواساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں کمی کےخلاف حکم امتناع حاصل کرلیا'

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ معاملہ کابینہ نہیں ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) آخر کیا کر رہی ہے؟، حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے، حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلے کرنے کے لیے معاملہ ہمارے گلے ڈال دیا جاتا ہے، ادویات کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوا ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں، ڈریپ کہتی ہے کہ مٹھی گرم کرو تو سارا کام ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی، حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں اور ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نجی کمپنی نے باسکوپان نامی دوا مارکیٹ سے غائب کر رکھی ہے، دوا کی قیمت پوری نہ ملے تو مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ ڈریپ بروقت فیصلہ نہ کرے تو مقررہ مدت کے بعد ازخود قیمت بڑھ جاتی ہے۔

عدالتی ریمارکس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نجی کمپنی نے 8 ادویات کی قیمتیں بڑھائیں، ڈریپ نے ایکشن لیا تو سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے دیا۔

بعد ازاں عدالتی عملے کی جانب سے یہ بینچ کو بتایا گیا کہ نجی کمپنی کے وکیل دوسری عدالت میں مصروف ہیں، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ اپریل 2019 کے وسط میں ادویات کی قیمتوں میں 400 فیصد تک اضافہ کیا گیا تھا جس کے بعد 23 اپریل کو وزیر اعظم نے 72 گھنٹوں میں قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی تھی۔

16 مئی 2019 کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے دعویٰ کیا تھا کہ کمپنیوں کے ساتھ بات چیت کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دوا کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ 75 فیصد ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ادویات کی قیمتوں میں اضافہ پالیسی کے منافی تھا، ڈریپ کا اعتراف

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ 889 ادویات کی قیمتوں پر غور کیا گیا جس میں سے 464 ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا اور 395 کی قیمتوں میں کمی ہوئی اور دیگر کو تبدیل نہیں کیا گیا۔

ان کے مطابق 464 ادویات جن کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا وہ کثرت سے استعمال کی جاتی ہیں، علاوہ ازیں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تمام ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 15 دوا ساز کمپنیوں نے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت کے برخلاف سندھ ہائیکورٹ (ایس ایچ سی) سے حکم امتناع حاصل کرلیا۔

تبصرے (0) بند ہیں