عذیر بلوچ سے پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت کا رابطہ تھا، سعید غنی

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2020
سعید غنی کا  کہنا تھا کہ میں بہت سے معاملات کا عینی شاہد ہوں—تصویر:ڈان نیوز
سعید غنی کا کہنا تھا کہ میں بہت سے معاملات کا عینی شاہد ہوں—تصویر:ڈان نیوز

صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت نان ایشوز کو ایشو بنا کر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی گئی ہے، عذیر بلوچ سے متعلق کوئی اور جے آئی ٹی رپورٹ یا اعترافی بیان ہوتا تو علی زیدی عدالت میں لے کر جاتے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اتنا بڑا نقصان پاکستان انٹرنیشنل لائنز (پی آئی اے) کو کبھی نہیں پہنچا جتنا اس حکومت کے ’نااہل اور نالائق‘ وزرا کے بیانات سے پہنچا ہے اور وہ اب بھی اسی بات پر مصر ہیں کہ جو ہم کررہے ہیں وہ صحیح ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس کے پسِ پردہ کچھ اور مقاصد کارفرما ہیں۔

صوبائی وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ پی آئی اے کو بھی اسٹیل ملز کی طرح زمین بوس کردیں اور پھر اپنے کسی اے ٹی ایم کے ساتھ سودے بازی کر کے مسئلہ حل کرلیں اس مسئلے سے عوام کی توجہ ہٹا دی گئی۔

'اہم مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا دی گئی'

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ملک میں پیٹرول بحران پیدا کیا گیا جس پر لاہور ہائیکورٹ نے کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، شوگر کمیشن کے خلاف ایک اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی جس کے درخواست گزاروں میں پی ٹی آئی کے لوگ شامل ہیں، ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوگیا، پنجاب میں گندم کا شدید بحران ہے، وفاقی، پنجاب اور خیبرپختونخوا کابینہ میں اراکین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہیں لیکن ان تمام مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا دی گئی۔

صوبائی وزیر کاکہنا تھا کہ اسی طرح کورونا وائرس ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے جس پر یہ ’نااہل سلیکٹڈ حکومت‘ صرف پاکستانیوں کو نہیں دنیا کو دھوکا دے رہی ہے ٹیسٹ کم کرکے کہا جارہا ہے کہ کیسز میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عزیر بلوچ، نثار مورائی، سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم

سعید غنی نے کہا کہ جان بوجھ کر عوام کے سامنے یہ معاملات آئے ہیں جن پر 5 سال پہلے اس سے زیادہ شور شرابہ ہوا، ٹرائل ہوئے مقدمے چلے، چالان پیش ہوئے، اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ ہوتی اور اعترافی بیان جس کا حوالہ دیا جارہا ہے تو علی زیدی عدالت میں جا کر گواہ بن جاتے۔

انہوں نے علی زیدی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کوئی موٹر سائیکل سوار گھر پر چٹھی دے گیا حالت یہ ہے کہ وفاقی وزیر بن گئے لیکن عقل نہیں آئی، ایم این اے بن گئے ہیں لیکن کونسلر بننے کے لائق بھی نہیں ہیں۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ 164 کے اعترافی بیان کی بات کرتے ہیں میں بھی ایک 164 کا اعترافی بیان پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ایم پی اے اسرار اللہ گنڈا پور ایک خود کش دھماکے میں جاں بحق ہوئے جن کے بھائی نے بیان دیا کہ ’میں اور پولیس ملزمان کی تلاش میں رہے اور مجھے ذرائع سے کچھ معلومات ملیں جس کی میں نے تصدیق کی کہ اس دھماکے میں علی امین گنڈا پور کے بھائی ملوث ہیں، جنہوں نے سیاسی دہشت گردی کرتے ہوئے منصوبہ بندی کی، فنانسنگ کی اور اپنی سیاست کا راستہ صاف کرنے کے لیے اس واقعے میں سہولت کاری کی‘۔

انہوں نے کہا کہ یہ 164 کا بیان کسی دہشت گرد، قاتل، بدنام زمانہ شخص کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے اپنے ایم پی اے کے بھائی کا ہے جو اس نے عدالت کے سامنے ریکارڈ کروایا، کیا پی ٹی آئی کے لوگوں کے اندر اتنی جرات ہے کہ اس 164 کے بیان کو تسلیم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹیز 3 آئیں بلدیہ ٹاؤن، عذیر بلوچ اور نثار مورائی کی، لیکن بلدیہ ٹاؤن کی جی آئی ٹی کو منظر عام سے غائب کردیا گیا اس لیے کہ وہ اتحادی ہیں، اصول پرستی پھر سب پر نافذ ہونی چاہیے۔

سعید غنی نے دعویٰ کیا کہ کہ فارن فنڈنگز میں پی ٹی آئی کو اسرائیل اور بھارتیوں سے رقوم موصول ہوئیں، شوکت خانم کے 30 لاکھ ڈالر علی زیدی نے اپنے اکاؤنٹ میں ڈلوالیے تھے پتا نہیں ان سے کسی نے اس بارے میں پوچھا یا نہیں پوچھا۔

'امن کمیٹی کے پی ٹی آئی سے رابطے تھے'

سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ علی زیدی نے پی ٹی آئی کی جانب سے عذیر بلوچ کو پارٹی میں شمولیت کی پیشکش کی تردید کی لیکن علی زیدی، عمران اسمٰعیل اور صدر پاکستان عارف علوی نے پی ٹی آئی کراچی کے مقامی عہدیداران کی کمیٹی تشکیل دی جس کو امن کمیٹی کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔

صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ صرف ایک آدمی اسد عمر نے اس کام سے انکار کیا اور وہ کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے اور کراچی کے ایک موجودہ ایم این اے کے گھر میں دعوتیں ہوتی رہیں جس میں ان تینوں کے علاوہ امن کمیٹی کے افراد بھی شریک ہوتے تھے۔

مزید پڑھیں: وفاقی وزیر کا سپریم کورٹ سے عذیر بلوچ و دیگر جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ

صوبائی وزیر نے کہا کہ کراچی میں پی ٹی آئی نے سی ویو پر دھرنا دیا جس میں امن کمیٹی کے رہنما شریک ہوتے تھے اور اسٹیج پر بیٹھتے رہے حبیب جان نے دھرنے سے ٹیلیفونک خطاب بھی کیا اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں۔

سعید غنی کا کہنا تھا اگر آپ کے گھروں میں دعوتوں اور دھرنوں میں وہ آجائیں تو وہ درست اور اگر پی پی پی کی قیادت کسی ایم پی اے کے گھر پر دعوت میں جاتی ہے اور وہاں عذیر بلوچ بھی تھا تو یہ جرم ہوگیا۔

انہوں نے کہا 2011 میں ذوالفقار مرزا نے پیپلز پارٹی کے خلاف کیا کیا نہیں بولا لیکن 2013 کے انتخابات میں فہمیدہ مرزا نے پھر انتخابی ٹکٹ مانگا۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ پی پی پی حکومت نے آپریشن ناکام ہونے کے بعد کراچی اور لیاری میں امن کے لیے مذاکرات کیے، اگر حکومتیں دہشت گردوں سے بات چیت کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کے جرائم میں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دعوت میں میں بھی شریک تھا، میں عذیر بلوچ سے ملا بھی ہوں اس کے گھر پر کھانا بھی کھایا ہے لیکن کیا ان لوگوں میں اتنی جرات ہے کہ جو کیا ہے اسے تسلیم کریں۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا عذیر بلوچ سے رابطہ تھا اور جب وہ پیپلز پارٹی کو گالیاں دیتے تھے تب سب چاہتے تھے وہ ان کی پارٹی میں شامل ہوجائیں۔

'کراچی کے امن نے کیلئے ہم نے دہشت گردوں سے مذاکرات کیے'

ان کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات کے کچھ ماہ بعد دوبارہ حالات خراب ہوئے، ہم نے تو ذوالفقار مرزا کے گند کو صاف کرنے کی کوشش کی اور آج ان کی تعریفیں ہورہی ہیں، ان سے آج تک کسی نے سوال جواب نہیں کیے اور جنہوں نے اس کی گندگی صاف کرنے کی کوشش کی ان سے سوال جواب ہورہے ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ 2011 میں ذوالفقار مرزا نے پیپلز پارٹی کے خلاف بہت باتیں کیں اور 2013 میں پھر فہمیدہ مرزا پی پی پی سے ٹکٹ مانگتی ہیں، ذوالفقار مرزا آصف علی زرداری کی قربت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ڈی فیکٹو چیف منسٹر بنے پھرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں ہی ذوالفقار مرزا پیپلز پارٹی مخالف ہوگئے تھے اس وقت فہمیدہ مرزا نے اپنے شوہر کا ساتھ اس لیے نہیں دیا کہ عہدہ ہاتھ سے جاتا اور یہ اسپیکر شپ چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں، لیکن آج اپنے شوہر کا ساتھ دے رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ، عذیر بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز میں سامنے آنے والے انکشافات

سعید غنی کا مزید کہنا تھا کہ میں بہت سے معاملات کا عینی شاہد ہوں، ہم نے کراچی کے حالات کو معمول پر لانے اور لیاری میں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کیے، آپریشن کی ناکامی کے بعد ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے بات چیت کی۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات تو صوفی محمد اور تحریک طالبان سے بھی کیے گئے، حکومتیں امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کرتی ہیں تو ان کے جرائم میں وہ شامل نہیں ہوجاتیں، اور ہمیں دہشت گردوں کا ساتھی کہنے والے خود اسامہ بن لادن کو شہید کہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2013 میں عمران خان نے احسان اللہ احسان کو خط لکھ کر کہا کہ ہمیں جلسے اور ریلیاں کرنے دو، ایم کیو ایم اور پی پی کو خطرہ تھا جبکہ یہ لوگ دہشت گردوں کی سرپرستی میں انتخابات لڑ رہے تھے، پی ٹی آئی دہشت گردوں کا سیاسی ونگ ہے۔

خیال رہے کہ رواں برس 28 جنوری میں سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی زیدی کی سانحہ بلدیہ فیکٹری، لیاری کے گینگسٹر عذیر جان بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی 3 رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست منظور کی تھی۔

تاہم اس معاملے پر کئی ماہ کی خاموشی کے بعد 30 جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر بحری امور علی زیدی ایوان میں عذیر بلوچ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ لے کر آئے تھے اور انہوں نے ایک ایک فرد کا نام لے کر بتایا تھا کہ اس میں کون کون ملوث تھا۔

جس پر 4 جولائی کو حکومت سندھ نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور بلدیہ ٹاؤن کیسز کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس کو پبلک کرنے کا اعلان کیا تھا۔

چنانچہ 7 جولائی کو حکومت سندھ نے سال 2012 میں پیش آنے والے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے آتشزدگی کے واقعے، لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے الگ الگ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس جاری کردیں۔

تاہم 8 جولائی کو علی زیدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےسندھ حکومت کی جے آئی ٹی کو غلط قرار دیا اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں