اسلام آباد: مدرسہ فریدیہ کا تنازع لال مسجد کے سابق خطیب کے جانے کے بعد عارضی طور پر حل

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2020
مولانا عبد العزیز اور ان کے اہل خانہ اور اس کے طلبہ ای-7 کا مدرسہ چھوڑ کر جی-7 میں قائم جامعہ حفصہ واپس چلے گئے ۔ فائل فوٹو:اے پی پی
مولانا عبد العزیز اور ان کے اہل خانہ اور اس کے طلبہ ای-7 کا مدرسہ چھوڑ کر جی-7 میں قائم جامعہ حفصہ واپس چلے گئے ۔ فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبد العزیز نے سیکٹر ای-7 میں قائم مدرسے جامعہ فریدیہ کو عارضی طور پر خالی کردیا جس کی وجہ سے وہاں اٹھنے والا تنازع عارضی طور پر حل ہوگیا ہے۔

وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ اور پولیس عہدیداروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ مولانا عبد العزیز اور ان کے اہل خانہ اور اس کے طلبہ نے ای-7 میں قائم مدرسہ جامعہ فریدیہ کو خالی کردیا اور وہ جی-7 میں قائم جامعہ حفصہ واپس چلے گئے۔

مولانا عبدالعزیز نے مبینہ طور مقامی علمائے کرام اور سرکاری عہدیداروں کی طرف سے انہیں وہاں لانے والے معاملے کو حل کرانے کی یقین دہانی کے بعد جامعہ فریدیہ کو خالی کردیا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ اس مدرسے کے اطراف میں پولیس کی موجودگی کو بھی کم کردیا گیا ہے کیونکہ صورتحال امتحانات، جو 11 جولائی کو مدرسوں میں شروع ہوں گے، تک کے لیے بہتر ہوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: مولانا عبدالعزیز کے قبضے کے بعد مدرسہ فریدیہ غیر متوقع تنازع کا مرکز بن گیا

ان کا کہنا تھا کہ مولانا عبدالعزیز اور جامعہ فریدیہ کے منتظم مولانا عبد الغفار دونوں نے مدرسے کی ملکیت کا دعوی کیا۔

مولانا عبدالغفار، مولانا عبدالعزیز کے قریبی ساتھی ہوا کرتے تھے تاہم اب ان میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز نے 2000 کی دہائی میں مولانا عبدالغفار کو جامعہ فریدیہ کا منتظم مقرر کیا تھا تاہم مدرسے کے انتظامات ان کے ہاتھ سے مولانا عبدالغفار کے ہاتھوں میں چلے گئے تھے۔

مولانا عبدالعزیز، ان کے اہل خانہ اور جامعہ حفصہ کے 200 طلبہ کچھ دن قبل جامعہ فریدیہ منتقل ہوگئے تھے۔

انہوں نے مولانا عبدالغفار اور اس کے ساتھیوں سے احاطہ خالی کرنے کو کہا تھا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا تھا اور دونوں نے جانے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبدالعزیز کے مطالبات سے پیچھے ہٹنے سے انکار پر لال مسجد تنازع برقرار

انتظامیہ اور پولیس عہدیدار بھی معاملے میں شامل ہوگئے تھے لیکن چونکہ یہ تنازع نجی نوعیت کا تھا اس لیے پولیس کی توجہ اس علاقے میں امن وامان برقرار رکھنے پر تھی۔

مدرسے کے چاروں طرف پولیس کا دستہ تعینات تھا۔

انتظامیہ کی درخواست پر علمائے کرام نے دونوں علما سے رابطہ کیا اور بات چیت کے ذریعے معاملہ طے کرنے کو کہا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ سرکاری حکام نے علمائے کرام کے ہمراہ مولانا عبدالعزیز کو یقین دلایا کہ زمین اور مدرسے کے اصل حق دار ہی کو اس پر قبضہ ملے گا۔

عہدیداروں نے بتایا کہ حکومت اس زمین یا مدرسے کی ملکیت نہیں رکھتی ہے اور محض دونوں فریقین کے درمیان تصادم سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔

علمائے کرام کو ضامن بنایا گیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مہینہ طلب کیا گیا ہے جس کے بعد مولانا عبدالعزیز نے مدرسہ خالی کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس ابھی بھی احتیاط کے طور پر مدرسے کے چاروں طرف تعینات ہے تاہم اہلکاروں کی تعداد میں کمی کی گئی ہے۔

عہدیداروں نے بتایا کہ مولانا عبدالعزیز کے والد نے 1970 کی دہائی کے آخر میں اس زمین کو حاصل کیا تھا اور اس پر مدرسہ تعمیر کیا تھا۔

مولانا عبدالعزیز کے بھتیجے ہارون رشید نے اس بات کی تصدیق کی کہ مولانا عبدالعزیز احاطہ چھوڑ کر جامعہ حفصہ میں اپنے گھر واپس چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ دارالحکومت انتظامیہ کے عہدیداروں اور علمائے کرام نے تنازع کے حل کے لیے ایک مہینے کے وقت مانگا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں