قانون سازی کے باوجود منشیات کے مقدمات پر سماعت کیلئے خصوصی عدالتیں قائم نہ ہوسکیں

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2020
صوبائی حکومت نے منشیات کے معاملات سے نمٹنے کے لیے اب تک خصوصی عدالتیں قائم نہیں کی ہیں۔ فائل فوٹو:رائٹرز
صوبائی حکومت نے منشیات کے معاملات سے نمٹنے کے لیے اب تک خصوصی عدالتیں قائم نہیں کی ہیں۔ فائل فوٹو:رائٹرز

پشاور: خیبر پختونخوا کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس ایکٹ 2019 کے نفاذ کو 10 ماہ سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی صوبائی حکومت نے منشیات کے کیسز سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم نہیں کیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق خصوصی عدالتوں کا وجود نہ ہونے کے باعث صوبائی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے اتفاق رائے سے سیشنز اور ایڈیشنل سیشن ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کو رواں سال فروری میں منشیات کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے اختیار دیا تھا تاکہ عدالتوں میں اضافی کام کا بوجھ کم ہوسکے۔

سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے حال ہی میں صوبائی حکومت کو خصوصی عدالتوں کے قیام میں تاخیر کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے خیبر پختونخوا کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹینٹ ایکٹ (کے پی سی این ایس اے) 2019 کے تحت سیشن ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹ فرسٹ کلاس کی موجودہ عدالتوں کو خصوصی عدالتوں کے نامزد کرنے کے لیے مشروط طور پر اتفاق کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ‘صوبائی اور وفاقی حکومتیں انسداد منشیات سے متعلق اپنی رپورٹ پیش کریں‘

ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب تک عدالتوں کے قیام کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے اور کیسز بحران جیسی صورتحال کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ حکومت اور ہائی کورٹ اس معاملے میں ایک پیج پر ہی نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں ہائی کورٹ خصوصی منشیات عدالتوں کے ابتدائی قیام میں دلچسپی رکھتی ہے وہیں حکومت اس معاملے کو کھینچ رہی ہے۔

معلومات رکھنے والے ذرائع کا کہنا تھا کہ 'نامزد عدالتوں کا مقصد دو مختلف انفورسمنٹ ایجنسیز بشمول ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ایکسائز اور ٹیکسیشن اینڈ پولیس ڈپارٹمنٹ کے پیدا کردہ کام کے بوجھ میں ہر وقت شراکت کرنے والی نہیں ہیں، جیسا انہیں قانون کے تحت کیسز کے اندراج اور تحقیقات کے لیے متعارف اور مجازی بنایا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی رضامندی کے اظہار کے وقت اس حقیقت کو حکومت کے علم میں لایا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے حکومت کو بتایا گیا تھا کہ وہ کے پی سی این ایس اے کے مقصد کے لیے نامزد عدالتوں کی اسکیم کے ساتھ چلنا چاہتی ہے تاکہ خصوصی عدالتوں کے قیام کی صورت میں انفرا اسٹرکچر کی اضافی لاگت اور ججز کے معاون عملے کو بچایا جاسکے، اس کے لیے اضافی سیشن ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی اضافی پوسٹیں بنانا ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ منشیات کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتوں کی حیثیت سے موجودہ عدالتوں کے نامزد کرنے سے ان میں مشکلات پیدا ہو رہی ہیں جس سے وہ موجودہ طاقت کے ساتھ کام کا بوجھ سنبھال سکیں۔

ذرائع نے بتایا کہ مالی سال 21-2020 میں خصوصی عدالتوں کے قیام اور ججز کے عہدے تشکیل دینے کے لیے صوبائی حکومت سے بات چیت کے باوجود ابھی تک کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر کے پی کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس ایکٹ (کے پی سی این ایس اے)، جو ستمبر 2019 میں نافذ کیا گیا تھا، کے تحت حکومت ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشاورت کے ساتھ قانون کی دفعہ 22 کے تحت خصوصی عدالتوں کے قیام کا نوٹی فکیشن جاری کرے گی۔

قانون کی دفعہ 23 کے تحت خصوصی عدالت کو خصوصی دائرہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ایکٹ کے تحت تمام جرائم کا مقدمہ چلاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد منشیات کیلئے طلبہ و اساتذہ کی اسکریننگ کی جائے گی، شہریار آفریدی

اسی طرح، دفعہ 33 میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے گرفتار شخص اور ضبط کیے گئے سامان کو 24 گھنٹوں کے اندر خصوصی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

جہاں موجودہ عدالتوں میں اختیارات دینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا اور کئی مہینوں سے صوبائی حکومت کے ذریعے خصوصی عدالتیں قائم نہیں کی گئیں، اس کی وجہ سے اس میں کئی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں اور کے پی بار کونسل کی کال پر وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ بھی شروع کردیا۔

اسی وجہ سے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار ملزمان کو ضمانت پر ان کی رہائی کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے اور رواں سال جنوری میں عدالت نے ایسے مشتبہ افراد کی بڑی تعداد میں ضمانت منظور بھی کی ہے۔

اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومت نے کے پی کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس (ترمیم) آرڈیننس ، 2019 نافذ کیا تھا اور اس کے ذریعے ایکٹ میں تبدیلیاں کی گئیں جس میں دفعہ 22 بھی شامل ہے، جس سے حکومت کو خصوصی منشیات عدالت کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے ججز کو اختیارات نامزد یا اختیارات فراہم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

اس کے بعد اس آرڈیننس کی 90 روز کی آئینی زندگی کی تکمیل کے ساتھ حکومت نے 29 اپریل 2020 کو کے پی کنٹرول آف نارکوٹکس سبسٹنس (دوسری ترمیم) آرڈیننس کو دوبارہ نافذ کردیا تھا۔

اس آرڈیننس کو بطور بل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا اور اسے 13 جولائی کو منظور بھی کیا گیا تھا اور اب اس کے نفاذ کے لیے گورنر کی منظوری کا انتظار ہے۔

ضمانت کی ایک درخواست میں ہائی کورٹ کے بینچ نے خصوصی عدالتوں کے قیام کے بارے میں بھی ریمارکس دیے تھے۔

دسمبر 2019 میں بینچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ 'دفعہ 22 کے تحت قائم ہونے والی خصوصی عدالتیں ایسی عدالتیں ہیں جسے صوبائی حکومت قائم کرے گی اور سرکاری جریدے میں نوٹی فائی کرے گی اور اس کے لیے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے مشاورت کے بعد ججز کا تقرر ہونا ہے'۔

اس کے مطابق، ایک قانونی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خصوصی عدالتوں کی عدم موجودگی میں سیشن کی ایک عام عدالت کے سامنے منشیات فروشی کے ملزمان اور منشیات کا سامان پیش کرنا سیکشن 33 کے مینڈیٹ کو پورا کرسکتی ہے یا نہیں، چاہے سیشن جج کی عدالت اس معاملے سے نمٹنے اور شکایت کنندہ اور گرفتار شخص کے زیر قبضہ سامان اور اس کی قسمت سے متعلق کوئی حکم جاری کرنے کے لیے دائرہ اختیار رکھتی ہو۔

اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ 'یہ قانونی کمزوری، ملزم / درخواست گزار کو ضمانت کی مراعات کا حقدار بناتی ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں