کورونا وائرس: پاکستانی غیرمصدقہ پلازما تھراپی کیلئے خطرہ مول لینے لگے

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2020
اس گروپ نے ساڑھے 7 سو سے زائد افراد کو پلازما عطیہ کرنے والوں سے رابطہ کرنے میں مدد دی — تصویر: اے ایف پی
اس گروپ نے ساڑھے 7 سو سے زائد افراد کو پلازما عطیہ کرنے والوں سے رابطہ کرنے میں مدد دی — تصویر: اے ایف پی

اسلام آباد: کووِڈ 19 کا شکار پاکستانی اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر خون کے پلازما کی منتقلی کے لیے بلیک مارکیٹ کا رخ کر رہے ہیں حالانکہ اس طریقہ علاج کے بارے میں بہت کم طبی شواہد موجود ہیں۔

پلازما سے علاج کے اس طریقہ کار میں صحتیاب ہوجانے والے مریضوں کے خون سے اینٹی باڈیز سے بھرا ہوا حصہ حاصل کر کے اسے کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے خون میں منتقل کیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر اس طریقہ علاج کی کامیابی کے دعوؤں کے باعث یہ پاکستان میں بہت مقبول ہورہا ہے۔

ڈان اخبار کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس طریقہ علاج کے لیے طبی ٹرائلز جاری ہیں جس میں خاصی پیش رفت ضرور دکھائی دی گئی ہے البتہ ٹھوس ثابت ہونے سے کہیں دور ہے۔

تاہم ناقابل یقین رسائی اور وقت طلب ہونے کی وجہ سے لوگ بلیک مارکیٹ اور نجی کلینکس کا رخ کررہے ہیں جہاں خون کے محفوظ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پلازما سے کورونا وائرس کے علاج کا معاملہ - اصل کہانی کیا ہے؟

پاکستان سوسائٹی آف ہیماٹولوجی کا کہنا تھا کہ پلازما کو ضرورت سے زیادہ اجاگر کرنے کی وجہ سے عوام اور کچھ ماہرین صحت بھی اسے وائرس کے علاج کا معیاری طریقہ سمجھتے ہیں۔

سوسائٹی کا کہنا تھا کہ ’پلازما کے استعمال سے بعض صورتوں میں ایسا ردِ عمل اور انفیکشن ہوسکتا ہے جو زندگی کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے‘۔

نواز مراد لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک لیکچرر ہیں جنہیں ڈاکٹرز نے ان کے والد کی زندگی بچانے کے لیے آخری کوشش کے طور پر پلازما تھراپی کا مشورہ دیا تھا جس پر انہوں نے فیس بک کا سہارا لیا اور کچھ ہی گھنٹوں میں انہیں ایک ڈونر مل گیا۔

چنانچہ جلد از جلد علاج مکمل کرنے کے لیے اس خاندان نے خون کی اسکریننگ نہیں کروائی جس میں ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کا خطرہ موجود تھا۔

مزید پڑھیں: پلازما تھراپی وائرس کا علاج نہیں، وزارت صحت

نوید مراد نے بتایا کہ ’بلاشبہ یہ خطرہ مول لیے جانے کے قابل تھا کیوں کہ ہمارے پاس جلد از جلد پلازما لگانے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا، یہ صورتحال غیر معمولی تھی اور میرے اہلخانہ سخت پریشان تھے‘۔

ڈونر نے یہ پلازما مفت عطیہ کیا لیکن نوید مراد کو گھر پر پلازما منتقل کروانے کے لیے ڈاکٹر کو 100 ڈالر یعنی 15 ہزار روپے سے زائد رقم ادا کرنی پڑی جبکہ کچھ نجی کلینک میں اس کام کے 50 ہزار روپے تک لیے جارہے ہیں۔

قانونی ماہر اسامہ ملک نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکام ’دوسری طرح دیکھ رہی ہیں‘ کیوں کہ غیر مجاز سینٹرز مہنگے داموں پلازما تھراپی کررہے ہیں اور مریضوں کی بڑی تعداد کے باعث 7 مجاز سینٹر ناکافی ہیں۔

نوید مراد کے والد اب صحتیاب ہیں اور رشتہ داروں کو یقین ہے کہ پلازما کے ذریعے علاج نے ان کی زندگی بچائی۔

بلیک مارکیٹ ڈیلرز

کورونا وائرس کے علاج کے لیے پلازما تھراپی اب تک غیر مصدقہ ہے صرف کچھ تحقیق میں دیگر بیماریوں مثلاً ایبولا اور سارس سے ہونے والے انفیکشن کے علاج میں اس کی کامیابی کا ذکر ہے۔

فیس بک پر ’کورونا ریکورڈ واریئرز‘ کے نام سے گروپ چلانے والے زوریز ریاض سید خود بھی کورونا سے متاثر ہو کر صحتیاب ہوچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے ساڑھے 7 سو سے زائد افراد کو پلازما عطیہ کرنے والوں سے رابطہ کرنے میں مدد دی۔

انہوں نے کہا کہ ان کا گروپ ’پورے پاکستان کو مرکزی پلیٹ فارم مہیا کررہا ہے‘ اور لوگ ملک کے خستہ حال ہیلتھ کیئر سسٹم سے زیادہ کمیونٹی پر بھروسہ کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بلڈ پلازما کا عطیہ دے کر کورونا مریضوں کی جان بچانے والے سپر ہیروز

حکومت کے کلینکل پلازما ٹرائلز کی نگرانی کرنے والے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ غیر مجاز منتقلی کو روکا جائے۔

انہوں نے کہا حکام بلیک مارکیٹ میں فروخت سے پریشان ہیں جہاں ڈیلرز تشویشناک مریضوں کے لیے فوری طور پر پلازما کا ایک بیگ فراہم کرنے کی ایک لاکھ سے زائد قیمت لے رہے ہیں۔

کورونا وائرس فیس بک گروپ نے ایسے بہت سے اراکین کو باہر کردیا جو اپنے پلازما کو فروخت کرنے کی کوشش کررہے تھے یہ کام پاکستان میں غیر قانونی اور عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔

اس حوالے سے وزارت صحت کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا البتہ حکومت نے ایک ہاٹ لائن قائم کر رکھی ہے جہاں پلازما کے عوض رقم کی ادائیگی پر مجبور کیے جانے کی شکایت کی جاسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں