’بد قسمتی ہے لوگ بریف کیس لے کر آتے ہیں اور بھر کے چلے جاتے ہیں‘

اپ ڈیٹ 10 اگست 2020
لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم کے  مشیروں کے تقرر کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی — فائل فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم کے مشیروں کے تقرر کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی — فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیراعظم کے مشیروں اور معاونین خصوصی کے تقرر کے خلاف دائر درخواست کی سماعت میں جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہاں ان کے اثاثے 25 ہزار روپے ہیں اور بیرون ملک 25 ہزار ڈالرز ہوتے ہیں، بد قسمتی ہے لوگ بریف کیس لے کر آتے ہیں اور بریف کیس بھر کے چلے جاتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان کے 16 مشیروں کے تقرر کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی اور وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے ندیم سرور ایڈووکیٹ کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے وزیراعظم کے مشیران اور معاونین خصوصی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، عبدالرزاق داؤد، امین اسلم، ڈاکٹر عشرت حسین، ڈاکٹر بابر اعوان، شہزاد ارباب، مرزا شہزاد اکبر، شہزاد قاسم، ڈاکٹر ظفر مرزا، معید یوسف، زلفی بخاری اور ندیم بابر کو نوٹس جاری کر دیے۔

یہ بھیی پڑھیں: وزیراعظم کے معاونین و مشیروں کا تقرر سپریم کورٹ میں چیلنج

اس کے علاوہ عدالت نے وزیراعظم کے تمام معاونین خصوصی کی خصوصیات، تعیناتی کا طریقہ کار اور ان کی ملک کے لیے خدمات اور اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہاں ان کے اثاثے 25 ہزار روپے ہیں اور بیرون ملک 25 ہزار ڈالرز ہوتے ہیں، بد قسمتی ہے لوگ بریف کیس لے کر آتے ہیں اور بریف کیس بھر کے چلے جاتے ہیں۔

درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نہ تو رکن اسمبلی ہیں اور نہ ہی سینٹ کے رکن ہیں لیکن انہیں وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا گیا ہے، آئین کی دفعہ 92 کے تحت وزیر اعظم کی سفارش پر صرف رکن اسمبلی ہی وفاقی وزیر کے عہدے پر مقرر کیا جا سکتا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 2 الف کے تحت غیر منتخب شخص ریاست کے اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتا جبکہ دفعہ 90 کی شق ون کے تحت وفاقی حکومت غیر منتخب افراد کو شامل کر کے نہیں چلائی جا سکتی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وفاقی کابینہ میں غیر منتخب افراد کو شامل کر نے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنے فرائض انجام دینے کے اہل نہیں ہیں۔

درخوست گزار کا مؤقف تھا کہ وزیر اعظم کے دوہری شہریت کے حامل مشیران خاص ریاست پاکستان کے لیے سیکیورٹی رسک ہیں، لہٰذا مشیروں اور معاون خصوصی کا تقرر غیر آئینی قرار دے کر انہیں عہدوں سے ہٹایا جائے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم کے معاونین خصوصی کو یکطرفہ کارروائی کا انتباہ

عدالت سے یہ استدعا کی گئی کہ آئین کی دفعہ 90 کی شق ون کے تحت منتخب اراکین اسمبلی کو وفاقی وزرا کے عہدوں پر تعینات کرنے کا حکم دیا جائے۔

ساتھ ہی یہ گزارش بھی کی گئی کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک وزیر اعظم کے تمام غیر منتخب مشیران خاص کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان کو بھی ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کرنے سے روکا جائے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس ہائی کورٹ کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان سے مکالمہ ہوا جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ ماہر لوگ ہوں، اسمبلی سے تکنیکی ماہر نہ مل سکیں تو ایسے لوگوں کو مشیر لگایا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق احمد خان سے استفسار کیا کہ آئین میں کہاں ذکر ہے کہ وزیراعظم کے مشیر تعینات کیے جا سکتے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئین کی دفعہ 93 کے تحت وزیر اعظم معاون خصوصی تعینات کر سکتا ہے اور آئین کی دفعہ 57 مشیروں کو پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ نوٹیفکیشن میں کہا جاتا ہے کہ معاون خصوصی کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہو گا یہ کہاں سے اخذ کیا گیا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ زلفی بخاری کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایسا کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے معاونین، مشیروں کے تقرر کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا اعتراض

جسٹس قاسم خان نے سوال کیا کہ معاون خصوصی کابینہ کے اجلاس میں کس طرح بیٹھ سکتے ہیں؟

جس پر اشتیاق اے خان نے بتایا کہ معاون خصوصی کابینہ میں نہیں بیٹھ سکتے، انہیں خاص طور پر بلایا جاتا ہے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اپنے کسی قریبی دوست کو کہیں کہ یہ میرا بڑا قریبی دوست ہے تو اسے معاون خصوصی لگا دیں گے؟ کوئی شخص اتنا قریبی ہو کہ اس کا لایا ہوا کھانا بھی کھاتا ہو اور کسی کے ہاتھ کا کھانا نہ کھاتا ہو تو کیا اس آدمی کو اس بنیاد پر معاون خصوصی لگایا جائے؟

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ بتا سکتے ہیں کہ کتنے معاون خصوصی ہیں؟ اور ان کی کیا خصوصیت ہے؟

جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ ان میں سے اکثر سہارا لیتے کہ ہم اوور سیز پاکستانیز ہیں جبکہ پیسہ بھیجنے والے سفید پوش لوگ ہیں، ہمارے بڑے بزنس ٹائیکون ہیں، کبھی میڈیا میں ایسی بات سامنے نہیں آئی کہ کسی نے بہت بڑی رقم پاکستان میں بھیجی ہو، یہ 25 یا 30 کروڑ کی سرمایہ کاری لائے ہوں تو پھر بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہوٹلوں میں قیام کیا، دوستوں پر کچھ خرچ کر دیا ایسا تو روٹین میں ہوتا ہے، ہمارا کلچر ہے کہ اس قسم کے خرچے کر کے چلے جاتے ہیں یہ تو ان سفید پوش لوگوں کا نام استعمال کرتے ہیں جو 15، 16 گھنٹے کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'ملک کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ہر بندہ کرسی پر بیٹھ کر اپنا ایجنڈا چلا رہا ہے'

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جی بالکل انہی سفید پوش لوگوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں غیر ملکی کرنسی آتی ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ سفید پوش اوورسیز پاکستانیز اصل حصہ ڈالتے ہیں اور جو بڑے لوگ صدر مملکت، وزیراعظم کو چیک دے کر تصویریں چھپوا کر میڈیا پر آجاتے ہیں، یہاں تو یہ پتا چلتا ہے کہ وہ جاتے ہوئے کیا کچھ لے گئے ہیں۔

اس دوران انہوں نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ کسی فرد کو کیسے معاون خصوصی تعینات کیا جاتا ہے، اگر بندوں کی شناخت ایسی ہے کہ ان کو کچھ عرصے کے بعد ہٹانا پڑ جائے؟ یہ جتنے حکومت کے ملازمین ہیں انہیں کوئی خصوصی اختیار دیا گیا ہے؟

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو غیر جانبدار نہیں ہونا آپ حکومت کو دفاع کرنے آئے ہیں، آپ کو یاد ہو گا کہ قاضی فائز عیسی کیس میں اٹارنی جنرل نے پیش ہونے سے معذرت کر لی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہوسکتا ہے اٹارنی جنرل کی کوئی اپنی رائے ہو، اس لیے آپ کو وفاقی حکومت کا دفاع کرنا ہے ورنہ خود کو اس کیس سے علیحدہ کر لیں۔

بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور مشیروں کو نوٹس جاری کر دیے اور مشیروں کے اثاثوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔

تبصرے (0) بند ہیں