اسلام آباد ہائیکورٹ کا وزیراعظم کے معاونین خصوصی کو یکطرفہ کارروائی کا انتباہ

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کے معاونین خصوصی کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے آئندہ ہفتے تک اپنی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست پر جواب جمع نہیں کرایا تو ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جائے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جب جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے درخواست پر سماعت شروع کی تو ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا خالد محمود خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اب تک کچھ معاون خصوصی نے جواب جمع نہیں کروائے۔

عدالت نے 3 مختلف سماعتوں کے دوران تمام فریقین کو نوٹس جاری ہونے کے باوجود جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ ایک مرتبہ پھر نوٹسز جاری کیے جائیں۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے معاونین و مشیروں کا تقرر سپریم کورٹ میں چیلنج

تاہم جسٹس عامر فاروق نے خبردار کیا کہ اگر فریقین آئندہ ہفتے تک جواب جمع نہیں کراتے تو عدالت ان کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرے گی۔

خیال رہے کہ درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وزیراعظم کے معاوینین خصوصی زلفی بخاری، شہزاد اکبر، ندیم افضل چن، ظفر مرزا، علی نواز اعوان، ڈاکٹر معید اور عثمان ڈار سمیت 15 کی تعیناتی غیرآئینی قرار دی جائے۔

درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ کیس کی پیروی کے دوران ہی نعیم الحق کا انتقال ہوگیا جبکہ فردوس عاشق اعوان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ یوسف بیگ مرزا، شمشاد اختر اور افتخار درانی نے بطور معاون خصوصی استعفیٰ دے دیا۔

مذکورہ درخواست گزار کی جانب سے عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 کے قواعد کے تحت معاونین خصوصی کے کردار کی تحقیق کی ہدایت دے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اپریل کے مہینے میں وفاقی حکومت میں وفاقی یا وزیر مملکت کی حیثیت کے ساتھ مشیروں اور معاونین خصوصی کی ایک بڑی تعداد کے تقرر کے وفاقی حکومت کے اختیار پر سوالات اٹھاتے ہوئے ان تعیناتیوں کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر ی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے معاونین، مشیروں کے تقرر کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا اعتراض

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے اراکین کی جانب سے پیش کردہ مشترکہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ڈیڑھ درجن سے زائد تعداد میں معاونین خصوصی اور مشیر آئین کے مطابق نہ تو پارلیمنٹ کے منتخب رکن ہیں اور نہ ہی کابینہ کا حصہ ہیں اس کے باوجود وہ ایگزیکٹو اتھارٹی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وزیر اعظم کے معاونین خصوصی اور مشیر جو وفاقی وزیر یا وزیر مملکت کی حیثیت رکھتے ہیں وہ تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات سمیت کسی بھی مالی فائدے کے حقدار نہیں ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ چونکہ وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت اعتماد پر کام کرتے ہیں لہٰذا وہ بھی پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح قانون کی پاسداری کرنے کے پابند ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں