وزیراعظم کے معاونین، مشیروں کے تقرر کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس کا اعتراض

اپ ڈیٹ 22 اپريل 2020
رجسٹرار آفس کے مطابق درخواست گزاروں نے پہلے سے موجود آپشن استعمال کیے بغیر عدالت سے براہ راست رجوع کرنے کا جواز پیش نہیں کیا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
رجسٹرار آفس کے مطابق درخواست گزاروں نے پہلے سے موجود آپشن استعمال کیے بغیر عدالت سے براہ راست رجوع کرنے کا جواز پیش نہیں کیا — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے وفاقی یا وزیر مملکت کے اختیارات کے حامل وزیراعظم کے غیر منتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کے تقرر کے خلاف دائر کی گئی درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رجسٹرار آفس نے اعتراض اٹھایا کہ درخواست میں متعدد نکات پیش کیے گئے لیکن عوامی مفاد کے سوال کی نشاندہی میں ناکام ہوگئی جو آئین کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ضروری ہے تاکہ سپریم کورٹ کے براہ راست دائرہ اختیار کے تحت استدعا کی جاسکے۔

درخواست دائر کرنے والے ایڈووکیٹ جہانگیر خان جدون نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں رجسٹرار آفس کا فیصلہ چیلنج کریں گے۔

درخواست واپس کرتے ہوئے رجسٹرار آفس نے یہ نشاندہی بھی کی کہ درخواست گزاروں نے ریلیف کے لیے قانون کے تحت پہلے سے موجود دیگر آپشنز کا استعمال کیے بغیر سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کرنے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی ’غیر ذمہ دارانہ‘ رویے پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی سرزنش

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے اراکین کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئین کے تحت معاونین خصوصی اور مشیر پارلیمنٹ کے منتخب اراکین تھے نا ہی کابینہ کا حصہ تھے جبکہ ان میں سے ڈیڑھ درجن سے زائد کو ایگزیکٹو اتھارٹی حاصل ہے۔

درخواست میں عدالت سے وفاقی وزرا یا وزیر مملکت کی حیثیت کے حامل معاونین خصوصی اور مشیروں کو تنخواہوں، الاؤنسز اور مراعات کا حقدار قرار نہ دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

اس میں نشاندہی کی گئی کہ وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت کام کرتے ہیں لہذا پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح ان پر قانون پر عمل کرنا لازمی ہے۔

درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ ایگزیکٹو اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوئے من مانی کرنا ان کی صوابدید نہیں انہوں نے آئین کے تحت اپنے فرائض انجام دینے کا حلف اٹھایا تھا لیکن عوامی نمائندوں کے بجائے غیر منتخب مشیران اور معاونین خصوصی کی جانب سے ایگزیکٹو اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت اپنے ساتھ جنگ کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کررہی ہے، اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں، سپریم کورٹ

مذکورہ درخواست میں مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی امین اسلم خان، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کامرس اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد، مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات اور کفایت شعاری ڈاکٹر عشرت حسین، مشیر برائے خزانہ اور ریونیو ڈاکٹر عبدالحفیط شیخ، مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان، معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ اور غربت ڈاکٹر ثانیہ نشتر، معاون خصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ محمد شہزاد ارباب کو فریق نامزد کیا گیا۔

درخواست میں معاون خصوصی برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر، معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز اور انسانی ترقی سید ذوالفقار عباس بخاری، معاون خصوصی برائے امور نوجوانان عثمان ڈار، معاون خصوصی برائے پارلیمانی تعاون ندیم افضل گوندل، معاون خصوصی برائے قوی سلامتی اور اسٹرٹیجک پالیسی پلاننگ ڈاکٹر معید یوسف، معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدورس، معاون خصوصی برائے معدنی وسائل شہزاد سید قاسم، معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور معاون خصوصی برائے سی ڈی اے علی نواز اعوان کو بھی فریق نامزد کیا گیا۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے تمام فریقین کو عہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے لے کر انہیں عہدے سے ہٹانے تک تمام تنخواہوں اور مراعات سرینڈر کرنے کی ہدایت دینے کی استدعا کی گئی کیونکہ ان کی تعیناتی آئین اور قانون کے خلاف ہے۔

یہ درخواست محمد ارشد خان اور غلام دستگیر بٹ کی جانب سے ایڈووکیٹ جہانگیر خان جدون نے دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جب سے حکومت سنبھالی ہے وزیراعظم عمران خان 25 وفاقی وزرا، 4 وزیر مملکت، 5 مشیر اور 14 معاونین خصوصی تعینات کرچکے جبکہ تقرریاں اور تبادلے تاحال جاری ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ 5 مشیروں کو وفاقی وزرا کے اختیارات حاصل ہیں، 14 معاونین خصوصی میں سے 7 کے پاس وزیر مملکت جبکہ 2 کو وفاقی وزیر کی حیثیت حاصل یے جبکہ ان میں سے کوئی وفاقی کابینہ یا پارلیمنٹ کا رکن نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں