حفاظتی ہدایات کو نظرانداز کرنا کورونا کیسز میں اضافہ کرسکتا ہے، ماہرین صحت

اپ ڈیٹ 17 اگست 2020
کورونا وائرس کے کیسز میں کمی کے بعد بازاروں میں رش بڑھ گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس کے کیسز میں کمی کے بعد بازاروں میں رش بڑھ گیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی: ملک جیسے ہی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے بعد کھلا بڑی تعداد میں لوگ بغیر فیس ماسک اور اس وہم کے کہ کووڈ 19 کی وبا ختم ہوگئی ہے گھروں سے باہر نکل آئے جبکہ ملک بھر میں یوم آزادی کا جشن اس بات کے ثبوت کے لیے کافی تھا کہ شہریوں نے احتیاطی تدابیر اور سماجی فاصلے کو ہوا میں اڑادیا۔

تاہم ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ احتیاطی تدابیر کو بھولنا انفیکشن کی شرح میں اضافے کا باعث بنے گا، ساتھ ہی انہوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ فیس ماسک پہنیں، خاص طور پر اس صورتحال میں جہاں سماجی دوری ممکن نہ ہو کیونکہ عوام کی یہ لاپرواہی ایک اور اسپائک (بلندی) کا سبب بن سکتی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 31 مئی کو ملک میں رش والے مقامات، مساجد، بازاروں، شاپنگ مالز اور بسز، ٹرین اور ہوائی جہازوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ میں فیس ماسکس پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

جولائی میں نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے ایک اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ عوام کی جانب سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر عمل کے ساتھ ماسکس پہننا ہی ملک میں کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے واحد اقدامات تھے۔

مزید پڑھیں: ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال میں بہتری، فعال کیسز 17 ہزار سے کم

تاہم شہر کی مرکزی مارکیٹوں کے دورے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو مشورے کو سنا نہیں گیا یا اسے بھلا دیا گیا۔

لوگ بغیر کسی فیس ماسک کے ایک دوسرے کے ارد گرد رش والی جگہوں پر موجود ہیں، کچھ دکانداروں کے پاس سرجیکل یا کپڑے کے ماسک تو ہیں لیکن وہ ایک کان پر لٹکے ہوئے ہیں یا تھوڑی کے نیچے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ سرکاری اور نجی اداروں میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے، اگرچہ وہاں داخلے کے لیے ماسکس ضروری ہیں لیکن ایک مرتبہ اندر جانے کے بعد یہ ماسک اکثر میز پر پڑا ہوا نظر آتا ہے۔

وہیں لاہور، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں سے ذرائع کی جانب سے یہی صورتحال بیان کی گئی۔

زیادہ تر کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ بہت گرمی ہے اور ماسک پہننے سے بے چینی ہوتی ہے، بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ وبا ختم ہوچکی ہے جبکہ مزید یہ سمجھتے ہیں کہ 'کورونا وائرس ایک دھوکے سے زیادہ کچھ نہیں'۔

کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال کے شعبہ تپ دق اور امراض سینہ کی سربراہ ڈاکٹر شیریں خان کا کہنا تھا کہ 'شکر ہے کیسز نیچے گئے ہیں لیکن لوگوں کو ماسک پہننے اور ایس او پیز پر عمل کرنے کی ضرورت ہے، عیدالاضحیٰ کے دوران لوگ آپس میں ملے ہیں اور اس کا اثر آئندہ ہفتے میں واضح ہوگا، (مزید یہ کہ) محرم الحرام آرہا ہے اور یہ خراب رویہ صورتحال کو مزید خراب کردے گا'۔

ڈاکٹر شیریں خان جنہیں بلوچستان میں کورونا وائرس کے خلاف کی جانب والی کوششوں پر 14 اگست کو ستارہ امتیاز کے لیے نامزد کیا گیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ مربوط جواب اور پابندیوں کی وجہ سے کووڈ 19 کے کیسز میں کمی آنا شروع ہوئی ہے لیکن اگر لوگ لاپرواہی کریں گے تو پھر سے بلندی کا امکان ہے۔

کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار لاہور کے میو ہسپتال میں کووڈ 19 کے فوکل پرسن ڈاکٹر محمد عادل کی جانب سے کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کیسز نیچے گئے ہیں لیکن 'خطرہ نہیں'، ساتھ ہی انہوں نے لوگوں سے کہا کہ عوامی مقامات پر ماسک لازمی پہنیں کیونکہ ماسک تحفظ کی ایک اضافی پرت فراہم کرتے ہیں جبکہ ساتھ ہی انہوں نے ہاتھوں کو بھی صاف رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ان کے بقول لوگ لاشعوری طور پر اپنی ناک اور منہ کو چھوتے ہیں، لہٰذا ماسک پہننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ناک اور منہ کو براہ راست نہیں چھوسکتے۔

کس طرح کے ماسکس؟

ڈاکٹر شیریں خان اور ڈاکٹر عادل دونوں نے یہ مشورہ دیا کہ سرجیکل ماسکس بہتر ہے لیکن کپڑے کا ماسک بھی ٹھیک ہے، ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ لوگوں کو این 95 ماسکس کو طبی عملے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔

اس حوالے سے میڈیکل مائیکروبائیولوجی اور انفیکشیس ڈیزیز سوسائٹی پاکستان (ایم ایم آئی ڈی ایس پی) نے ڈان کو بتایا کہ ماسکس تھوک اور سانس کے ذریعے نکلنے والے ذرات کو دوسروں تک پہنچنے سے روکتے ہیں، ماسک کو پہننے والے، دیگر لوگوں کے ان ذرات سے محفوظ رہتے ہیں، لہٰذا کووڈ 19 جیسے انفیکشن کو ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے سے روکا جاسکتا ہے اور اس کے لیے ماسک کا استعمال وائرس کی منتقلی روکنے کا مؤثر دریعہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا فیس ماسک کو پہننا جسم میں آکسیجن کی کمی کا باعث بنتا ہے؟

سوسائٹی کا کہنا تھا کہ بچے بھی جب باہر جائیں اور جب اسکول دوبارہ کھلیں تو انہیں بھی کپڑے کا ماسکس پہننا چاہیے، یہ انہیں محفوظ رکھے گا اور وائرس کو گھر تک لانے سے روکنے میں مدد دے گا۔

تاہم ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کپڑے کے ماسکس کے ساتھ ساتھ، اچھی طرح ہاتھوں کو صاف رکھنے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔

باہر کھانا اور گھومنا

ادھر خیبرپختونخوا کے سیکریٹری سیاحت عابد مجید کہتے ہیں کہ ملک کے شمالی علاقوں میں سیاح بڑی تعداد میں آرہے ہیں لیکن 'ایک سخت پالیسی، ماسک نہیں تو رکنے کی اجازت نہیں (نو ماسک نو اسٹے) پر عمل درآمد کیا جارہا ہے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ تک عابد مجید خیبرپختونخوا کے محکمہ امداد اور بحالی کی سربراہی کر رہے تھے جو کووڈ 19 پر کام کررہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ صوبے میں 'ماسک آن' پالیسی پر سختی سے عمل کرایا جائے تاکہ مقامی آبادی اور سیاح محفوظ رہ سکیں۔

ماہرین صحت کہتے ہیں کہ سفر اور باہر کھانے کے دوران ماسکس اور سماجی دوری بہت زیادہ ضروری ہے۔

ایم ایم آئی ڈی ایس پی کا یہ بھی کہنا تھا کہ سماجی دوری کے ساتھ کھلے مقامات ٹھیک ہیں لیکن بند مقامات خطرے کو بڑھادیتے ہیں، اگر ایک متاثرہ شخص ایئرکنڈیشنڈ ریسٹورنٹ میں طویل وقت کے لیے رکتا ہے تو دیگر کے متاثر ہونے کا اصل خطرہ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹیک اوے اور ڈیلوری اب بھی بہتر انتخاب ہے اور اگر کسی ہوٹل میں رکتے ہیں تو اپنے کمرے یا کھلی جگہ پر کھانا کھانے کا انتخاب کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں