اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کی توثیق کردی

اپ ڈیٹ 19 اگست 2020
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میان گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اے ایف پی:فائل فوٹو
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میان گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے شوگر بحران کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کے تشکیل کردہ کمیشن کو غیر قانونی قرار دینے کے ایک روز بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ صرف کمیشن کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیا بلکہ اس کی رپورٹ کی توثیق بھی کردی جس میں شوگر ملز کے خلاف عوام کے پیسے کا غلط استعمال اور کارٹلائزیشن کے لیے فوجداری مقدمات کی سفارش کی گئی تھی جس کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میان گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

اس سے قبل جسٹس اطہر من اللہ نے شوگر ملز کے خلاف انکوائری رپورٹ کی منظوری دی تھی اور کہا تھا کہ انکوائری ایجنسیز قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرسکتی ہیں۔

کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو شوگر اسکینڈل کی آزادانہ اور الگ الگ تحقیقات کرنے کی ہدایت کی تھی۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ: شوگر کمیشن کی تشکیل اور رپورٹ غیر قانونی قرار

تاہم قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں ایک دوسرے سے تضاد ہے لہذا سپریم کورٹ کسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کا فیصلہ جاری کر سکتی ہے۔

سینئر وکیل محمد اکرم شیخ کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں جب دونوں اعلیٰ عدالتوں نے ایک ہی معاملے پر مختلف آراء پیش کیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا ماضی میں بھی ہوچکا ہے جب اعلیٰ عدالتوں نے متضاد فیصلے منظور کیے اور پھر سپریم کورٹ نے مستقل حکم جاری کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے اس معاملے کا ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'فوری اپیل کو ختم کرنے کے لیے ضروری حقائق یہ ہیں کہ چینی کی عدم دستیابی اور اس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے عام عوام متاثر ہوئی جس کی وجہ سے وزیر اعظم نے 20 فروری 2020 کو تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کمیٹی کے کنوینئر، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے تھے اور اس کا مینڈیٹ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنا تھا'۔

9 مارچ کو انکوائری کمیٹی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر تجویز پیش کی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے گریڈ 21 کے یا اس کے برابر کے افسران پر مشتمل ایک کمیشن کے ذریعے کی جائے۔

اس کے بعد 16 مارچ کو حکومت نے ایف آئی اے کے ڈی جی واجد ضیا، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل گوہر نفیس، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نائب ڈی جی احمد کمال، ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹربلال رسول، اسٹیٹ بینک کے جوائنٹ ڈائریکٹر ماجد حسین چوہدری، ایف بی آر انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ڈی جی بشیر اللہ خان کو نوٹی فائی کیا اور بعد ازاں کمیشن میں انٹر سروسز انٹلی جنس (آئی ایس آئی) کے ایک عہدیدار کرنل فیصل گل کو بھی شامل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت کا صوبوں، متعلقہ اداروں کو شوگر ملز کیخلاف تحقیقات کا حکم

شوگر انڈسٹری کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کے سامنے مؤقف اپنایا کہ پاکستان کمیشن آف انکوائری 2017 ایکٹ کی دفعات کے تحت انکوائری کمیشن کو وسیع اختیارات حاصل ہیں، جن میں عدالت کے کچھ اختیارات بھی شامل ہیں، وفاقی حکومت کے ایک انکوائری کمیشن کے تقرر کے فیصلے کو مناسب اور آزادانہ خیال پر مبنی ہونا چاہیے مگر وفاقی حکومت نے انکوائری کمیٹی کے کنوینئر کی جانب سے 9 مارچ وزیر اعظم کو مخاطب کرنے والے خط میں دی گئی تجاویز کی بنیاد پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا اور مذکورہ خط کے علاوہ ریکارڈ میں ایسی کوئی دستاویزات نہیں جس نے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کے وفاقی حکومت کے فیصلے کی بنیاد رکھی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن کو قانونی طور پر تشکیل نہیں دیا گیا تھا، انکوائری کمیشن تشکیل دینے اور انکوائری کمیشن کے ممبران کے تقرر کے لیے 2017 ایکٹ کے سیکشن 3 (1) اور (2) میں پہلے سے طے شدہ شرائط کو پورا نہیں کیا گیا تھا، 2017 ایکٹ کے سیکشن 3 (1) نے وفاقی حکومت کو 'سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے' اور ان ایکٹ کے سیکشن 3 (2) کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا اختیار دیا لیکن اس طرح کے نوٹیفکیشن سرکاری گزٹ میں شائع نہیں کیے گئے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن کی رپورٹ کو جانبداری سے داغدار کردیا گیا کیونکہ کمیشن کے تین ممبران کے پہلے سے ہی اپنے خیالات تھے اور وہ شوگر انڈسٹری کے مخالف تھے۔

تاہم اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ چینی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے سے کمیشن کے قیام کی ضرورت پیدا ہوئی جو ایک اشیائے ضروریات ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر عوام متاثر ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: شوگر انکوائری رپورٹ کی کارروائی پر حکم امتناع میں توسیع

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے میڈیا کے استعمال کے لیے کاسمیٹک اقدامات کرنے کے بجائے مسئلے کی جڑ تک پہنچنے اور عوام کی حالت زار کو دور کرنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ وسیع پیمانے پر شرائط کے حوالے سے کمیشن کی تشکیل کا فیصلہ وفاقی حکومت نے لیا حالانکہ اس میں وفاقی حکومت کو غیر مستحکم کرنے یا اسے خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت موجود تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن کے ممبران سرکاری ملازم ہیں جن کی ساکھ پر کوئی شک نہیں۔

یہ بھی کہا گیا کہ سرکاری گزٹ میں کسی نوٹیفکیشن کی اشاعت کی ضرورت کا بنیادی مقصد عوام کو اس بات سے آگاہ کرنا تھا کہ کیا نوٹی فائی کیا جارہا ہے، جہاں سرکاری گزٹ میں کسی نوٹیفکیشن کی اشاعت نہ ہونے سے قانون پر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو پھر اس کی اشاعت نہ ہونا خطرناک نہیں۔

انہوں نے استدلال کیا کہ اپیل کنندہ اس بنیاد پر کمیشن کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھاسکتے ہیں کہ نوٹی فکیشن کو سرکاری گزٹ میں شائع نہیں کیا گیا کیونکہ جب انہیں ابتدائی طور پر جاری کیا گیا تھا تب انہیں کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کا علم تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انکوائری رپورٹ میں پیش کی جانے والی سفارشات کے نتائج سے بچنے کے لیے تکنیکی اعتراضات کیے جارہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ انکوائری کمیشن نے حقائق تلاش کرنے کی کوشش کی تھی اور ان کے پاس جرمانہ عائد کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

مزید یہ کہ حقائق کی کھوج یا کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر کسی بھی فریق کے خلاف کوئی منفی کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے اور حقیقت کی کھوج نیب اور ایف آئی اے وغیرہ جیسے قانونی اتھارٹی کے لیے نقطہ آغاز ثابت ہوسکتی ہیں تاکہ وہ اپنے خیال کو پیش کریں اور فیصلہ کریں کہ متعلقہ فریق کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیداوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

بعد ازاں حکومت چینی بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں