رفیق حریری قتل کیس کا فیصلہ، حزب اللہ رکن مجرم قرار

اپ ڈیٹ 19 اگست 2020
رفیق حریری کو فروری 2005 میں بیروت میں کار بم دھماکے کرکے قتل کیا گیا تھا—فوٹو:رائٹرز
رفیق حریری کو فروری 2005 میں بیروت میں کار بم دھماکے کرکے قتل کیا گیا تھا—فوٹو:رائٹرز

اقوام متحدہ کےمنظور شدہ ٹریبیونل نے لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے 2005 میں بدترین بم دھماکے میں قتل کا فیصلہ سنادیا اور حزب اللہ کے ایک رکن کو مجرم قرار دے دیا۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نیدرلینڈز کے شہر ہیگ کی عالمی عدالت کے خصوصی ٹریبیونل نے حزب اللہ کے رکن سلیم عیاش کو مجرم قرار دیا گیا ہے جبکہ دیگر تین اراکین کو الزامات سے بری کردیا گیا ہے۔

خصوصی ٹریبیونل نے 14 فروری 2015 کودارالحکومت بیروت میں رفیق حریری کے قتل کے 15 برس بعد کیس کا فیصلہ سنادیا۔

یہ بھی پڑھیں:بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 سے تجاوز کر گئی، 5 ہزار زخمی

لبنان کے سابق وزیراعظم سعد حریری نے اپنے بیان میں کہا کہ 'ہم ٹریبیونل کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور انصاف اورمجرموں کی سزا پر عمل درآمد چاہتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'جنہوں نے میرے والد کو قتل کیا، وہ لبنان کی شناخت، نظام اور اس کی مہذب شناخت کو تبدیل کرنا چاہتے تھے'۔

یاد رہے کہ حزب اللہ کے 4 اراکین پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا جبکہ حزب اللہ کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے حملے میں ملوث ہونے سے انکارکیا تھا۔

حزب اللہ کے جن 4 اراکین پر الزام عائد کیا گیا تھا ان میں سلیم عیاش، اسد صابرا، حسن اونیسی اورحسن حبیب مہری شامل تھے اور ان کی عدم موجودگی میں کیس مکمل کیا گیا کیونکہ حزب اللہ نے ان کی رہائش بتانے سے انکار کردیاتھا۔

فیصلہ سنانے والے ایک جج مچیلن بریڈے نے کہا کہ سلیم عیاش ایک موبائل فون استعمال کرتے تھے جس کی شناخت پراسیکیوٹرز نے حملے میں نہایت اہم قرار دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ خصوصی ٹریبیونل ثبوت کو دیکھتے ہوئے ان دلائل سے مطمئن ہے کہ سلیم عیاش نے موبائل استعمال کیا تھا۔

جج جینٹ نوسورتھی نے کہا کہ استغاثہ نے دیگر تین ساتھیوں کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ناکافی ثبوت پیش کیے۔

خصوصی ٹربیونل کے سربراہ جج ڈیوڈ رے کا کہنا تھا کہ ثبوت بڑے پیمانے پر موبائل فون نیٹ ورک کی بنیاد پر تھے کہ ملزم رفیق حریری پر حملے سے ایک مہینہ پہلے سے ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کررہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے کے بعد ملزم کے فون اندھیرے میں چلے گئے۔

مزید پڑھیں:لبنان کے دارالحکومت میں زور دار دھماکا، 25 افراد ہلاک

جج نوسورتھی کا کہنا تھا کہ موبائل فون کے 4 مختلف نیٹ ورک آپس میں منسلک تھے اور ایک دوسرے سے رابطہ کررہے تھے اور مقررہ وقت پر خفیہ نیٹ ورک کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے۔

ججوں نے کہا کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ قتل سیاسی بنیادوں پر دہشت گردی کاواقعہ تھا تاکہ لبنان کے عوام میں خوف کاباعث بنے۔

جج ڈیوڈ رے نے فیصلہ پڑھتے ہوئے کہا کہ 'عدالت نے بلاشک و شبہ یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خودکش بمبار نے دھماکا کیا'۔

یاد رہے کہ رفیق حریری کے قتل کے بعد لبنان میں متحارب گروپوں میں شدید تنازعات نےجنم لیا اور برسوں چلتے رہے جبکہ ان کے قتل کو 1975 اور 1990 کی سول وار سے بھی بدترین بحران قرار دیا گیا تھا۔

لبنان میں 40 برس سے زائد عرصے سے موجود شامی فورسز پر بھی قتل کے الزامات عائد کیے گئے تھے جس کے بعد انہیں دستبردار ہونا پڑا تھا۔

شام میں بشارالاسد کی حکومت نے رفیق حریری کے قتل میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

جج ڈیوڈ رے کہا کہ 'عدالت اس رائے کے حق میں ہے کہ شام اور حزب اللہ کے رفیق حریری اور ان کے چند سیاسی اتحادیوں کو راستے ہٹانے کے مقاصد ہوسکتے ہیں'۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'تاہم رفیق حریری کے قتل میں حزب اللہ کی قیادت کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور شام کے ملوث ہونے سےمتعلق بھی براہ راست کوئی ثبوت نہیں ہیں'۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق 'فیصلے میں بالواسطہ طور پر حزب اللہ پر انگلی اٹھائی گئی ہے، اقوام متحدہ کی عدالت کو ریاستوں، حکومتوں یا تنظیموں کو مجرم ثابت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تاہم انفرادی طور پر فیصلہ سنا سکتی ہے'۔

رفیق حریری کے قتل کے فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے اس حوالے سے ابھی کچھ واضح نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بیروت دھماکا:'وہ لڑکی جو سو مردوں جتنی مضبوط تھی،یوں کیسے ہلاک ہوسکتی ہے'

اقوام متحدہ کے ٹریبیونل کے فیصلے کے بعد اندازے لگائے جارہے ہیں، کیا لبنان کو سلیم عیاش کو حوالے کردینا چاہیے لیکن حکومت میں حزب اللہ اور انکے اتحادی ہیں اور اختیارات بھی ان کے پاس ہیں، جن سے اس کی توقع نہیں کی جارہی ہے۔

حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اپنی تحریک کے کسی رکن کو حوالے نہیں کریں گے اور ملزمان کے بارے میں اصرار کر رہے ہیں کہ وہ بے گناہ ہیں۔

انہوں نے ٹریبیونل کو حزب اللہ کے خلاف سازش قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق اگر کیس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھیج دیا جاتا ہے تو وہاں پر موجود اندرونی تفرقے کے باعث اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہوگی۔

لبنان میں بیروت دھماکے کے بعد حالات انتہائی خراب ہیں اور حکومت مستعفی ہوچکی ہے جبکہ سابق وزیراعظم سعد حریری کو متوقع حکمران خیال کیا جارہاہے۔

فیصلے کے بعد لبنان کی اندرونی سیاست میں کیا ہوگا کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ حزب اللہ اور ان کے اتحادی طاقت میں ہیں اورکیا وہ رفیق حریری سے ہاتھ ملائیں گے یا نہیں آنے والے دنوں میں واضح ہوجائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں