حیات بلوچ کا قتل ناقابل قبول، جرم کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے، شیریں مزاری

اپ ڈیٹ 21 اگست 2020
شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کیا—فوٹو: ڈان نیوز
شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کیا—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بلوچستان میں فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکار کے ہاتھوں مبینہ طور پر قتل ہونے والے نوجوان حیات بلوچ کے معاملے پر کہا ہے کہ لوگوں پر اس طرح کا تشدد کرنا اور مارنا جمہوریت میں ناقابل قبول ہے اور اس طرح کا جرم کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں کراچی یونیورسٹی کے طالب علم کو قتل کرنے کے الزام میں پولیس نے فرنٹیئر کور کے ایک سپاہی کو گرفتار کیا تھا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد تفتیش بھی شروع کردی گئی۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے خود بلوچستان میں حیات بلوچ کے قتل کی مذمت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ سخت ایس او پیز ہونے چاہئیں تاکہ اس طرح کے واقعات نہ ہوں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پہلے ہی اتنی احساس محرومی ہے اور اس طرح کے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔

مزید پڑھیں: تربت میں طالبعلم کے قتل کے الزام میں ایف سی اہلکار گرفتار

تاہم وفاقی وزیر نے کہا کہ معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے، جنہوں نے قتل کیا تھا انہیں پکڑا گیا ہے اور واقعے کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے جبکہ آئی جی ایف سی نے خود حیات بلوچ کے گھر جاکر کہا ہے کہ انصاف ہوگا۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ فضا بدل رہی ہے اور امید ہے اسی طرح بدلتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں کسی بھی شخص کے خلاف اس قسم کا تشدد کرنا، مارنا جمہوریت میں ناقابل قبول ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں اسمبلی سے بار بار آواز اٹھانا پڑے گی کہ کسی کے خلاف بھی تشدد اور ظلم ہو تو اس کے خلاف تحقیقات ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح آئی جی ایف سی ان کے گھر گئے ہیں اور حیات بلوچ کو قتل کرنے والے ایف سی کے اہلکار گرفتار ہوئے ہیں، اگر اس قسم کا تشدد کسی سے بھی ہوتا ہے اور جو جرم کرتے ہیں انہیں سزا ملنی چاہیے۔

اسپیکر قومی اسمبلی کو یاد دہانی کرواتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ آپ نے سندھ میں ایک صحافی کے قتل پر کمیٹی بنانی تھی وہ ابھی تک نہیں بنائی تو جب ایوان ایک فیصلہ کرتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا تو اس سے جمہوریت کو نقصان ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ 13 اگست کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربیت میں ایف سی کے قافلے پر ہونے والے دھماکے کے بعد کھجوروں کے باغات میں موجود جامعہ کراچی کے طالبعلم حیات بلوچ کو پکڑا گیا تھا، جس کے بعد ایف سی اہلکار نے فائرنگ کرکے مبینہ طور پر اسے قتل کردیا تھا۔

بعد ازاں واقعے کے 3 روز بعد پولیس نے ایف سی کے ایک اہلکار کو گرفتار کیا تھا اور مقتول کے بھائی کی مدعیت میں مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیش شروع کی تھی۔

واقعے سے متعلق ایف سی بلوچستان نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ 13 اگست کو تربت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں دہشت گردوں نے ابصار کے علاقے میں ایک ایف سی قافلے کو آئی ای ڈی (دیسی ساختہ دھماکا خیز مواد) سے نشانہ بنایا اور اس کے نتیجے میں ایک نان کمیشنڈ افسر سمیت تین اہلکار زخمی ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: حیات بلوچ قتل کیس: والد نے شناختی پریڈ میں 'قاتل' کو پہچان لیا

بیان کے مطابق واقعے کے بعد علاقے میں موجود حیات بلوچ سمیت کچھ مقامی لوگوں سے واقعے کے بارے میں پوچھ گچھ کی جارہی تھی کہ دوران تفتیش ایف سی کے سپاہی نائیک شاہد اللہ نے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں حیات بلوچ زخمی ہوگیا اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ یہ ایک فرد کا جرم تھا لیکن ایک ادارے کی حیثیت سے ایف سی بلوچستان نے اندوہناک واقعے اور دہشت گردوں کی جانب سے آئی ای ڈی دھماکے کی شدید مذمت کی تھی اور متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔

ادھر ایف سی جنوبی کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل سرفراز علی نے تربت میں حیات بلوچ کے گھر کا دورہ کیا تھا اور اس کے والد اور اہل خانہ کے دیگر افراد سے تعزیت کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی تھی۔

علاوہ ازیں حیات بلوچ کے والد نے تربت ڈسٹرکٹ جیل میں شناختی پریڈ کے دوران ملزم کی شناخت کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں