حکومت سندھ کو 2 ماہ میں سرکاری گھروں کو غیرقانونی مکینوں سے خالی کرانے کا حکم

اپ ڈیٹ 21 اگست 2020
عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کو 2 ماہ کے اندر سرکاری مکانات کو غیرقانونی مکینوں سے خالی کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے سرکاری گھروں پر غیرقانونی قبضے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے وکیل و دیگر حکام پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: سرکاری گھروں پر قبضے خالی کروانے کیلئے وزارت ہاؤسنگ کو آخری مہلت

عدالت میں سماعت کے دوران سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ صوبے کے 229 سرکاری گھروں پر غیرقانونی قبضہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے گھر خالی کرانے کا عمل روک دیا گیا تھا۔

اسی دوران سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ اسلام آباد پولیس، سی ڈی اے کے 200 کوارٹرز پر قابض ہے، اس معاملے پر مذاکرات ہوئے لیکن پولیس قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔

وکیل کی بات پر عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد کی صرف 4 سرکاری رہائش گاہیں واگزار نہیں ہوسکیں کیونکہ چاروں رہائشگاہوں کے کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے مذکورہ معاملے پر عمل درآمد رپورٹ بھی طلب کی اور ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر سی ڈی اے کوارٹرز پر اسلام آباد پولیس کے قبضے کے معاملے کو دیکھیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے سندھ میں غیرقانونی الاٹمنٹ منسوخ کرتے ہوئے میرٹ پر الاٹمنٹ کا حکم دیتے ہوئے 2 ماہ میں سرکاری گھروں کو غیرقانونی مکینوں سے خالی کرانے کا حکم دے دیا۔

خیال رہے کہ سال 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مختلف محکموں کے افسران کی جانب سے بڑی سرکاری رہائش گاہیں رکھنے کا نوٹس لیا تھا۔

اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی یہ سرکاری رہائش گاہیں ملک کے اہم شہروں کے پوش علاقوں میں موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے تمام صوبائی چیف سیکریٹریز سے رپورٹ طلب کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں 4 ہزار ایک سو 68 سرکاری کوارٹرز پر قبضے کا انکشاف

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اکتوبر 2018 میں عدالت کے حکم پر کراچی سرکاری کوارٹرز خالی کروانے کی کوشش کی گئی تھی جس پر سخت احتجاج سامنے آیا تھا اور پولیس کو خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تھا۔

علاوہ ازیں یہ بھی واضح رہے کہ جولائی 2018 میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ کراچی میں 4 ہزار 168 سرکاری کوارٹرز پر قبضہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مارٹن کوارٹرز میں 639 اور پٹیل پاڑہ میں 301 مکانوں پر قبضہ ہے، اسی طرح گارڈن اور پاکستان کوارٹرز میں 49 مکانوں پر قبضہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں