پی ٹی اے کا یوٹیوب سے غیر اخلاقی، نفرت انگیز تقاریر پر مبنی مواد ہٹانے کا مطالبہ

28 اگست 2020
پی ٹی اے  کے مطابق 
 یوٹیوب کو  مواد کی  نگرانی کے لیے مؤثر اور معتدل طریقہ کار اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی —  فائل فوٹو: رائٹرز
پی ٹی اے کے مطابق یوٹیوب کو مواد کی نگرانی کے لیے مؤثر اور معتدل طریقہ کار اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی — فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب سے پاکستان میں غیر اخلاقی، فحاشی اور عریانی پر مبنی مواد اور نفرت انگیز تقاریر پر مبنی مواد کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

اس حوالے سے پی ٹی اے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے یوٹیوب پر موجود نامناسب / غیر اخلاقی / فحش مواد کے انتہائی منفی اثرات کے پیش نظر اور نفرت انگیز تقاریر اور فرقہ وارانہ مواد کی موجودگی کی وجہ سے اختلاف سے بچاؤ کے لیے رابطہ کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی اے نے قابل اعتراض مواد کو فوری طور پر ہٹانے اور اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایسے مواد کا پھیلاؤ روکنے کے لیے یوٹیوب سے رابطہ کیا۔

مزید پڑھیں: شوبز شخصیات ملک میں یوٹیوب پر ممکنہ پابندی کی مخالف

ساتھ ہی یوٹیوب کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مواد کی نگرانی کے لیے مؤثر اور معتدل طریقہ کار اختیار کرے تاکہ غیرقانونی مواد کا پتا لگایا/ حذف کیا جاسکے اور پاکستان میں ایسے مواد کو ناقابل رسائی بنایا جاسکے۔

خیال رہے کہ 22 جولائی کو سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر قابل اعتراض مواد کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت خارجہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا تھا۔

سوشل میڈیا اور ویب اسٹریمنگ ویب سائٹس پر قابل اعتراض مواد کی موجودگی سے متعلق سماعت کے دوران عدالتی بینچ کے رکن جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے تھے کہ ہمیں آزادی اظہار رائے سے کوئی مسئلہ نہیں، ہم عوام کے پیسے سے تنخواہ لیتے ہیں، ہماری کارکردگی اور فیصلوں پر عوام کو بات کرنے کا حق ہے لیکن سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر ہمارے خاندانوں کو نہیں بخشا جاتا۔

ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے تھے کہ امریکا اور یورپی یونین کے خلاف مواد یوٹیوب پر ڈال کر دکھائیں، کئی ممالک میں یوٹیوب بند ہے۔

جسٹس قاضی امین نے پوچھا تھا کہ کیا ایف آئی اے اور پی ٹی اے نے دیکھا ہے کہ یوٹیوب پر کیا ہورہا ہے؟ ایسے جرم کے مرتکب کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی؟

اس پر عدالت میں پی ٹی اے حکام نے بتایا تھا کہ ہم انفرادی مواد کو ہٹا نہیں سکتے، صرف رپورٹ کرسکتے ہیں۔

عدالتی ریمارکس کے بعد 22 اور 23 جولائی کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر (یوٹیوب بین) کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر رہا تھا اور کئی افراد نے اس کی ممکنہ بندش کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: فواد چوہدری اور تانیہ ایدورس کی یوٹیوب پر ممکنہ پابندی کی مخالفت

جہاں عام افراد نے یوٹیوب کی ممکنہ بندش پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا وہیں شوبز شخصیات نے بھی یوٹیوب کی ممکنہ بندش کی مخالفت کی تھی۔

علاوہ ازیں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدورس نے سپریم کورٹ کی جانب سے یوٹیوب کی بندش کا عندیہ دینے کے بعد اس کی ممکنہ بندش کی مخالفت کی تھی۔

فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ عدالتیں اور پی ٹی اے مورل پالیسنگ اور بندش کے معاملے سے دور رہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ انٹرنیٹ پر مبنی ایپس پر پابندیاں، پاکستان کی ٹیک انڈسٹری کو نقصان پہنچائے گی اور ٹیکنالوجی کی ترقی مستقل طور پر رک جائے گی، ہم ابھی مشکل وقت سے باہر نہیں آئے۔

تبصرے (0) بند ہیں