حکومت سے سمجھوتے کے بعد آئی پی پیز کے مابین اختلافات

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2020
اس سمجھوتے کو حکومت نے اس وقت اپنے اہم کارناموں میں سے ایک قرار دیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
اس سمجھوتے کو حکومت نے اس وقت اپنے اہم کارناموں میں سے ایک قرار دیا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرنے کے بعد انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے مابین سنگین اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باہمی بداعتمادی کے سبب آئی پی پیز کے 2 بڑے گروہوں اور آئی پی پیز کی ایڈوائزری کمیٹی کے سربراہ خالد منصور میں اختلافات سامنے آگئے، خالد منصور نے بجلی بنانے والے اداروں کی جانب سے مذاکرات کی سربراہی کی تھی اور اب مستعفی ہوگئے ہیں۔

آئی پی پی اے سی کو 28 جولائی کو ارسال کردہ استعفے میں انہوں نے لکھا کہ 'مجھے بتایا گیا کہ 4 کمپنیوں (نشاط پاور لمیٹڈ، نشاط چونیاں پاور، لبرٹی پاور اور اٹک جین لمیٹڈ) نے آئی پی پی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کو خط لکھ کر بجلی کے شعبے کے معاملات حل کرنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں میری نامزدگی پر اعتراض اٹھایا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی لاگت کم کرنے کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ ہوگیا، وفاقی وزیر

انہوں نے مزید کہا کہ 'حالانکہ میں نے وہ خط نہیں دیکھا لیکن مجھے اس مواد سے مطلع کیا گیا ہے جس کے مطابق آئی پی پیز کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ میں ان کے مفادات کا تحفظ یا ان کی نمائندگی کروں گا'۔

خیال رہے کہ آئی پی پی اے سی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے درمیان آئی پی پی اسپانسرز کو دیے جانے والے ریٹرنز کی کمی کے علاوہ ان ریٹرنز کے لیے ڈالر کی اشاریہ سازی کے خاتمے سمجھوتے کی یادداشت طے پائی تھی۔

اس سمجھوتے کو حکومت نے اس وقت اپنے اہم کارناموں میں سے ایک قرار دیا تھا۔

خالد منصور نے اپنے استعفے میں لکھا کہ 'اگر اب اراکین سمجھتے ہیں کہ اس پورے عمل کے دوران میں نے ان کے مفادات کے لیے کام نہیں کیا تو میں اپنا استعفیٰ پیش کرتا ہوں، ذاتی اور پیشہ ورانہ دیانت داری سرزنش سے بالاتر ہے'۔

مزید پڑھیں:اگر آئی پی پیز رپورٹ درست ہے تو مافیا نے ملک کا گینگ ریپ کیا، صدر مملکت

تاہم خالد منصور کے خط میں نامزد کمپنیوں کے گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر ذرائع نے مختلف نقطہ نظر پیش کیا۔

انہوں نے خالد منصور اور ان کے مذاکرات کی ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ 'وہ اپنا راستہ سیدھا کررہے تھے، انہوں نے ایک سبسیڈری بنائی اور اپنی کمپنی کا تمام منافع وہاں منتقل کردیا جبکہ دیگر کمپنیاں یہ نہیں کررہی تھیں اس لیے کچھ اداروں کا منافع دوسروں سے زیادہ ظاہر ہوا تھا'۔

ذرائع نے کہا کہ منافع کو چھپانے کے اس عمل کا خالص نتیجے میں کچھ آئی پی پیز کو 'حد سے زیادہ' منافع دیکھا گیا جو 14 سے 17 ارب روپے تھا جبکہ دیگر کا منافع صفر تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے آئی پی پیز سے ’زائد‘ منافع پر سوالات

ان سے جب پوچھا گیا کہ اگر انہیں اضافی منافع حاصل ہوا یا نہیں اس کی تحقیقات کے لیے اکاؤنٹس نیپرا کے حوالے کرنے پر تحفظات تھے تو ان کی کمپنی نے سمجھوتے کی یادداشت پر دستخط کیوں کیے تو انہوں نے جواب دیا گیا کہ 'ہم اس وقت سخت دباؤ میں تھے'۔

تبصرے (0) بند ہیں