کراچی: پولیس نے سوشل میڈیا پر 'قابل اعتراض' مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں زیر حراست انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون سے وابستہ صحافی بلال فاروقی کو سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر کی 'ذاتی ضمانت' پر رہا کردیا۔

حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے بلال فاروقی کی رہائی کی تصدیق کردی اور انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'انہیں رہا کردیا گیا ہے اور پولیس انہیں واپس ان کی رہائش گاہ لے جا رہی ہے'۔

کراچی پولیس کے چیف ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے تصدیق کی کہ ڈیفنس پولیس اسٹیشن کے انوسٹی گیشن افسر نے صحافی کو گرفتار کیا تھا۔

اس سے قبل ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ ایک شہری جاوید خان کی شکایت پر بلال فاروقی کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 500 اور 505 اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 11 اور 12 کے تحت ایف آئی درج کی گئی تھی۔

جاوید خان نے الزام لگایا تھا کہ بلال فاروقی نے 'انتہائی قابل اعتراض مواد' اپنے ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹ پر شیئر کیا۔

ہفتے کی صبح ایکسپریس ٹریبیون کے نیوز ایڈیٹر بلال فاروقی جوڈیشل مجسٹریٹ (ساؤتھ) عذیر علی کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران تفتیشی افسر (آئی او) ملک بشارت نے ایک عبوری رپورٹ درج کی جس میں کہا گیا کہ پی پی سی کی دفعات 500 اور 505 کو ایف آئی آر سے ہٹا دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'پی ای سی اے کے دوسری شق تاحال فعال ہیں'۔

جج نے آئی او پر برہمی کا اظہار کیا کہ اور ریمارکس دیے کہ پی پی سی کی دفعات ختم کرنے کے بعد مذکورہ کیس پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں رہا اور اب یہ معاملہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کا ہے۔

جج نے عبوری رپورٹ واپس کردی اور آئی او کو آئندہ سماعت پر مناسب رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ قانون کے تحت رپورٹ پیش کرنے کے لیے آئی او کے پاس 14 دن ہیں۔

ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی پریس کلب کے وکیل غلام شبیر نے بتایا کہ پولیس نے صحافی کو ذاتی مچلکے پر رہا کیا۔

شبیر نے کہا کہ سماعت کے دوران آئی او نے کہا کہ پولیس نے محکمہ آپریشن کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر پر تفتیش کی۔

انہوں نے کہا کہ آئی او نے اعتراف کیا کہ پولیس کو صحافی کے خلاف سائبر کرائم الزامات کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہے۔

کراچی پریس کلب کے وکیل نے کہا کہ امکان ہے کہ پولیس 'سی' (منسوخ) کلاس رپورٹ درج کرے گی کیونکہ ان کے پاس بلال فاروقی کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔

شکایت گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے 9 ستمبر کو ڈی ایچ اے فیز 2 ایکسٹنشن میں ایک ریسٹورنٹ کا دورہ کیا جہاں انہوں نے بلال فاروقی کا فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ چیک کیا اور اس میں انہیں انتہائی قابل اعتراض مواد نظر آیا۔

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ بلال فاروقی کی جانب سے پاکستان آرمی اور مذہبی منافرت پر مبنی مواد کی حامل انتہائی اشتعال انگیز پوسٹ شیئر کی گئیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ بلال فاروقی نے پاکستان آرمی کی تضحیک کی اور اس طرح کی سوشل میڈیا پوسٹ دشمن عناصر مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں