پارلیمان میں دھمکی کے ذریعے بل منظور کروائے گئے، بلاول بھٹو

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2020
بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: ڈان نیوز
بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا— فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پارلیمان میں زبردستی قانون سازی منظور کی جا رہی ہے لیکن اگر قانون سازی زور اور دھمکی سے کی جائے گی تو اس کا اور اس طرح کی پارلیمان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نہیں تھے، وہ آج ہمارے درمیان ہیں، اس وقت انہیں کافر اور غدار کہنے والے آج انہیں شہید ماننے کو تیار ہیں اور ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق تین بل منظور، اپوزیشن کا احتجاج

انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی موجود ہیں جو شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو کہتے ہیں کہ آپ خاتون ہیں اس لیے آپ وزیر اعظم نہیں بن سکتیں، جو انہیں کرپٹ کہتے تھے وہ آج انہیں شہید مانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں ہر کسی سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن ہم فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر حملے بھی ہوتے ہیں، میڈیا پر ہماری کردار کشی ہوتی ہے، ہمارے شہیدوں کی کردار کشی کی جاتی ہے لیکن ہم اپنے مؤقف اور منشور پر قائم ہیں، کبھی کبھار ہم کامیاب ہوتے ہیں، کبھی ہم کامیاب نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان ہے کہ ہار جیت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن محنت ہمارے سیاسی کارکن نے کی ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ جو اکا دکا چھوٹی موٹی جمہوریت رہی ہے، جو تھوڑی بہت میڈیا کو آزادی میسر ہے، جو میرے مزدور کا محض کاغذ پر ہی صحیح لیکن قانون تو موجود ہے اور وہ ان قربانیوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان ایک ایسے وقت سے گزر رہا ہے کہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم مدینہ کی ریاست میں ہیں لیکن مدینہ کی ریاست کا یہ حال ہے کہ پاکستان کے سب سے مشہور موٹر وے پر ایک عورت کا اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی ریپ کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'صوبائی حکومت کے منصوبوں میں وفاق ساتھ دے تو کراچی میں انقلاب لاسکتے ہیں'

انہوں نے کہا کہ اس عورت کو تحفظ دینا جن کی ذمے داری ہے اور جن کی ذمے داری تمام عورتوں کو یہ باور کرانا ہے کہ آپ کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے، وہ ریپ کرنے والے پر نہیں بلکہ متاثرہ خاتون پر سوال اٹھاتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ جو لوگ ریپ متاثرہ خاتون پر سوال اٹھاتے ہیں، ان کے دفاع میں اس ملک کے وزیر اور وزیر اعظم سامنے آ جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مدینہ کی ریاست کا یہ حال ہے کہ ملک بھر میں اس وقت سیلاب متاثرین ہیں، میرے اپنے صوبہ سندھ میں 25 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، ان کے گھر اور 1.8 ملین ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو چکی ہے، بلوچستان میں بھی بارشوں اور سیلاب کے متاثرین موجود ہیں، ملاکنڈ ڈویژن، سوات اور خیبر پختونخوا میں سیلاب کے متاثرین موجود ہیں، گلگت بلتستان میں بھی متاثرین موجود ہیں لیکن ہمارے مین اسٹریم میڈیا میں ان کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے کوئی موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو یاد ہوگا کہ جب 2011 میں بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آیا تھا تو ریاست پاکستان اور وفاق کا سب سے اہم کردار تھا، ان کو وطن کارڈ دیا تھا، ان کو معاوضہ دیا گیا تھا، آج ہمارے سیلاب متاثرین لاوارث ہیں، ان کو سنبھالنے اور معاضہ دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف سے متعلق دو حکومتی بل قومی اسمبلی کی کمیٹی سے منظور

بلاول نے کہا کہ جب ہم اپنے ملک کی اہم ترین قانون سازی کرنے جاتے ہیں تو وہ ہم آزاد ماحول میں نہیں کرتے، آج تک اس قومی اسمبلی میں جو اہم قانون سازی ہوئی ہے وہ قانون اور آئین کو پس پشت ڈال کر اور پارلیمان کو بے اختیار کر کے زبردستی سے پاس کیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ دوسرے فریق کو اختلاف رائے کی اجازت اور موقع نہیں دیا جاتا، کل کا مشترکہ اجلاس اس کی مثال ہے جس میں اسپیکر صاحب ووٹ کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر ساتھ نہیں دے رہے تھے، ہمارا حق ہے کہ ہر ووٹ پر وہ ہماری تعداد گنیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ووٹ نہیں گنا جائے گا، ہماری آواز نہیں سنی جائے گی تو ہم جیسی جماعتوں کو بھی سوچنا پڑے گا کہ آخر ہم کب تک اس پارلیمان کو ایک ربڑ اسٹیمپ کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ مدینہ کی ریاست میں بولنے کی آزادی تو تھی لیکن یہاں تو نام نہاد حکمرانوں کے پاس بھی وہ آزادی نہیں ہے، قائد حزب اختلاف اور اپوزیشن اراکین کے لیے زیادہ پابندیاں ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مالکان جو ہمیں دھمکی دیتے تھے اور جمہوری حکومتوں کو کہتے تھے کہ ہم حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں، آج وہ پابندیاں اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'ایف اے ٹی ایف بل پاس ہونا حکومت کی بڑی فتح ہے'

انہوں نے کہا کہ کل جو سلیکٹڈ ہوتے تھے، جو ایک دوسری طرح کی سیاست کے عادی تھے وہ بھی سب انقلاب اور عوام کے نعرے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں قابل احترام بار کے اراکین اور وکلا برادری نے مدعو کیا لیکن میں ان سے ایک شکوہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب افتخار چوہدری کی عدلیہ کی آزادی کی تحریک میں پیپلز پارٹی نے اپنا آزادانہ مؤقف سامنے رکھنا چاہا تو کیا اس وقت آپ نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا یا آزاد عدلیہ کے نام پر نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری عدلیہ کو ایک آمرانہ ادارہ بنانے میں ساتھ دیا۔

بلاول نے کہا کہ میں پوچھنا چاہوں گا کہ کیا دھاندلی، آمریت، سلیکٹڈ، میڈیا کی آزادی کا معاملہ کیا پاناما کے خلاف شروع ہوا، جب پاکستان پیپلز پارٹی اینٹ سے اینٹ بجانے نکلی تھی تو باقی سب نے ہمیں کیا کہا کہ ہم صرف اپنے کرپشن بچانے کے لیے بیانات دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ نشانے پر ہیں، اس وقت تو ہمارے ساتھ بہت سی جماعتیں کھڑی ہیں لیکن ایک وقت تھا جب ہم کہتے تھے کہ یہ ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اور وہ اس لیے کیونکہ ہم نے 1973 کے آئین کو بحال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں جتنی بھی جماعتیں بیٹھی ہیں، ان سب کی شکایتیں ہیں اور ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں: پارلیمان کی کارروائی کو پاؤں تلے روندا گیا، شہباز شریف

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستاب بار کونسل نے ہمارے سامنے تین نکات رکھے ہیں جو نئے نکات نہیں ہیں اور ہمیں آج کم از کم ان تین نکات پر متفق ہونا چاہیے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں تھا کہ ہم ججوں کا تقرر کیسے کریں گے، اس میں تھا کہ آئینی عدالتیں ہوں گی جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی بھی ہو گی، ہم نے اس پر بہت کام کیا تھا، جو کام رہتا ہے وہ عدلیہ سے متعلق ہے، ہم کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں نہیں کرنے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ 19ویں ترمیم ہماری پارلیمنٹ سے زبردستی منظور کرائی گئی اور 18ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے جو 1973 کے آئین کو بحال کیا تھا جس پر ایک لائن کی وجہ سے ایک ادارے کی طرف سے صاف دھمکی دی گئی اور وہ لائن یہ تھی کہ ہم نے پارلیمانی اراکین اور قانونی برادری کی رائے سے ججز کا فیصلہ کرنا ہے لیکن اس بات کو انہوں نے ایک خطرے کے طور پر دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک دھمکی کے نتیجے میں 19ویں ترمیم پاس کی گئی اور وہ دھمکی 1973 کا آئین تھا جو ایک اسلامی، وفاقی اور پارلیمانی نظام ہے جو اس ملک کو جوڑتا ہے لیکن اگر قانون سازی زور اور دھمکی سے کی جائے گی تو اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور اس پارلیمان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں اس فورم سے درخواست کروں گا کہ آپ اپنی قرارداد میں یہ بات ڈالیں کہ 19ویں ترمیم منسوخ کی جائے اور ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں عوام کا سب سے زیادہ کردار ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: نظام انصاف متاثرین کے بجائے مجرموں کی حمایت کرتا ہے، اٹارنی جنرل

بلاول نے کہا کہ ہم انسانی حقوق پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، 2020 میں مدینہ کی ریاست میں آپ ایک کتاب نہیں چھاپ سکتے، ایک ٹوئٹ نہیں کر سکتے، آپ ایک رکن اسمبلی اور جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود آزادی سے انٹرویو نہیں کر سکتے ورنہ آپ کا انٹرویو کٹ جاتا ہے، یہ جدید دنیا کا طریقہ نہیں ہے۔

ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا، شہباز شریف

بعد ازاں شہباز شریف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان 73 سالوں میں آمروں نے اپنی مرضی کی ترامیم کرا کے عدلیہ کو بھی بہت زیادہ کمزور کیا اور پھر عدلیہ کے دفاع کے لیے جو کام سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کو کرنا چاہیے تھا، وہ اس طرح سے نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جہاں سیاسی جماعتوں نے بہت اچھے کام کیے وہیں ہم سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں اور ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج میڈیا پر اتنی بندش ہے کہ اس کی پہلے کبھی نظیر نہیں ملتی اور جس طرح سے ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں، اس پر میڈیا کے معتبر افراد بھی گزشتہ دو ڈھائی سال کے دوران سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف چلائی گئی مہم سے سبق سیکھیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ عدلیہ جب بھی سیاست کی نذر ہوئی تو اس کا پاکستان کو نقصان پہنچا کیونکہ انصاف امیر اور غریب سب کے لیے برابر ہے۔

مزید پڑھیں: نیب نے کبھی کسی بے گناہ شخص کے خلاف کارروائی نہیں کی، چیئرمین نیب

انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو ہمیں صوبوں کے اختیارات کا تحفظ کرنا ہو گا اور پاکستان کو صحیح معنوں میں وفاق کی شکل دیتے ہوئے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک میں یکساں احتساب سے کسی کو اعتراض نہیں اور اگر اس ملک میں صحیح طریقے سے احتساب کیا جائے تو حکومت کی صفوں میں بیٹھے ہوئے اکثر لوگ اس سے بچ نہیں سکیں گے۔

آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ

پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ ججوں کے تقرر کے طریقہ کار میں تبدیلی کی جائے۔

ملکی سیاسی جماعتوں، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے طریقہ کار میں تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن ختم کر کے ایسا فورم بنایا جائے جس میں پارلیمان کی نمائندگی ہو، احتساب کے نظام میں خامیاں ختم کی جائیں اور احتساب کو انتقام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: آئین و عدالتی فیصلوں کا احترام نہ کرتے تو گزشتہ دو تین سال کی تاریخ مختلف ہوتی، خواجہ آصف

آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ 1973 کے آئین کی روح کے منافی قانون سازی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی اور ملک میں شہری اور شخصی آزادیاں صلب کی جا رہی ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ ففتھ جنریشن وار کی آڑ میں شہریوں کو لاپتا کرنے اور مقدمات کے اندارج کے واقعات تشویش ناک ہیں جبکہ ملکی اداروں کی سیاست میں مداخلت کی بھی مذمت کی گئی ہے۔

نوٹ: اس خبر کے لیے ڈان نیوز کے نمائندے حسیب بھٹی نے بھی مدد فراہم کی۔

تبصرے (0) بند ہیں