ٹرمپ-جو بائیڈن کا پہلا مباحثہ، ایک دوسرے پر ذاتی حملے

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2020
وائٹ ہاؤس کے دونوں دعویداروں نے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کیں اور توہین بھی کی جس کی وجہ سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوگیا۔ فائل فوٹو:اے پی
وائٹ ہاؤس کے دونوں دعویداروں نے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کیں اور توہین بھی کی جس کی وجہ سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوگیا۔ فائل فوٹو:اے پی

ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن کے درمیان ٹرمپ قیادت میں کورونا وائرس، معیشت اور سالمیت کے حوالے سے پالیسیز پر زبردست مقابلہ دیکھا گیا جس میں ذاتی توہین، ایک دوسرے کو مختلف ناموں سے پکارنا اور ٹرمپ کی بار بار دخل اندازی دیکھی گئی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ماڈریٹر کرس والیس بحث کا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام نظر آئے۔

وائٹ ہاؤس کے دونوں دعویداروں نے ایک دوسرے کے خلاف باتیں کیں اور توہین بھی کی، جس کی وجہ سے کسی بھی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہوگیا۔

مباحثے کے پہلے حصے میں سپریم کورٹ کے حوالے سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی بار بار مداخلت سے پریشان جو بائیڈن نے ایک موقع پر کہا 'کیا تم اپنی بکواس بند رکھو گے؟ یہ بالکل غیر صدارتی ہے'۔

بعد ازاں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو روسی صدر ولادمیر پیوٹن کا حوالہ دیتے ہوئے 'پیوٹن کا کتا'، مسخرا، نسل پرست' کہا اور کہا کہ 'تم امریکا کے اب تک کے سب سے بدترین صدر ہو'۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ نے برسوں سے ٹیکس ادا نہیں کیا، امریکی اخبار کا دعویٰ

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'جو، تم میں بالکل ہوشیاری نہیں ہے'۔

بحث کے آخر میں کرس والیس نے خود صدر سے اپیل کی کہ وہ دخل اندازی بند کریں۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا خیال ہے کہ اگر ہم دونوں لوگوں کو کم مداخلت کے ساتھ بولنے کی اجازت دیتے تو ملک کی بہتر خدمت ہوگی، میں آپ سے اپیل کر رہا ہوں کہ جناب ایسا کریں'۔

ٹرمپ نے جواب دیا 'ٹھیک ہے، اور یہ بھی ایسا کرے'۔

کرس والیس نے کہا کہ 'مگر آپ، آپ زیادہ مداخلت کرتے رہے ہیں'۔

ٹرمپ نے جواب دیا 'مگر یہ بہت کرتا ہے'۔

واضح رہے کہ 77 سالہ جو بائیڈن کو قومی رائے شماری میں 74 سالہ ٹرمپ پر مستقل برتری حاصل رہی ہے حالانکہ سروے میں کہا گیا ہے کہ دونوں کے درمیان نتائج بہت قریب قریب ہوں گے۔

اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ اس بحث سے انتخابات پر کیا اثر پڑے گا۔

جوبائیڈن نے کورونا وائرس کے بارے میں ٹرمپ کی قیادت پر سوال کیا جس کی وجہ سے امریکا میں 2 لاکھ سے زائد امریکی ہلاک ہوچکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ گھبرا گئے تھے اور امریکیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے کیونکہ وہ معیشت کے بارے میں زیادہ فکر مند تھے۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ گھبرا گئے یا انہوں نے اسٹاک مارکیٹ کی جانب ہی دیکھا'۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ 'بہت سے لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور مزید ہوں گے جب تک یہ ذہانت کا استعمال نہیں کرتے اور جلد اقدام نہیں کرتے'۔

یہ بھی پڑھیں: جوبائیڈن صدارتی مباحثے سے قبل یا بعد میں ڈرگ ٹیسٹ کرائیں، ٹرمپ کا مطالبہ

ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کے 'ذہین' لفظ کے استعمال پر اعتراض کیا اور کہا کہ 'یا تو تم نے تعلیم سب سے کم مارکس لے کر حاصل کی یا اپنی کلاس میں سب سے کم نمبر لیے تھے، ذہانت کا لفظ میرے سامنے کبھی نہ لینا، کبھی بھی یہ لفظ استعمال نہ کرنا'۔

انہوں نے وبا کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا اور کہا کہ 'ہم نے بہت زبردست کام کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جو کام ہم نے کیا ہے وہ تم کبھی نہیں کرسکتے تھے، یہ تمہارے خون میں ہی نہیں ہے'۔

ٹرمپ کا سپریم کورٹ میں تقرر کا دفاع

ٹرمپ نے امریکی سپریم کورٹ کی ایک نشست پر تیزی سے تقرر سے متعلق اپنی کوشش کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'انتخابات کے اثرات ہوتے ہیں' اور ڈیموکریٹس کے اعتراضات کے باوجود انہیں اس کا حق حاصل ہے۔

انہوں نے قدامت پسند جج ایمی کونے بیرٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ 'میں آپ کو آسان الفاظ میں سمجھاتا ہوں کہ ہم نے انتخابات جیتا، جس کے کچھ اثرات ہوتے ہیں، ہمارے پاس سینیٹ ہے اور ہمارے پاس وائٹ ہاؤس ہے اور ہمارے پاس ایک غیر معمولی نامزد امیدوار ہے جس کا سبھی احترام کرتے ہیں'۔

جو بائیڈن نے کہا کہ رتھ بیڈر جنسبرگ مرحوم کی نشست پر انتخابات کے بعد تقرر ہونی چاہیے جب یہ واضح ہوجائے کہ صدر کون ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمیں انتظار کرنا چاہیے، ہمیں انتظار کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ اس انتخابات کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کیونکہ زیادہ قدامت پسند سپریم کورٹ سے اوباما کیئر کے نام سے مشہور سستے فلاحی ایکٹ کو خطرہ ہوگا'۔

اس مباحثے سے چند گھنٹوں قبل جو بائیڈن نے اپنے 2019 کے ٹیکس گوشوارے بھی جاری کیے اور ان کی انتخابی مہم نے ٹرمپ سے مطالبہ کیا، جو اپنی ٹیکس ریٹرنز کو جاری نہ کرنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا کر رہے ہیں کہ وہ بھی ایسا کریں۔

جو بائیڈن نے یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا جب نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 اور 2017 میں فیڈرل انکم ٹیکس میں صرف 750 ڈالر کی ادائیگی کی تھی اور گزشتہ 15 میں 100 سالوں میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں