شاید آپ کو فروری کا وہ دن یاد ہو جب آپ کو پہلی بار احساس ہوا کہ نوول کورونا وائرس واقعی کچھ خطرناک ہے۔

اب اس وقت آپ جو بھی کررہے ہوں، ہوسکتا ہے کہ اس احساس کے بعد ذہنی طور پر پریشان اور خوفزدہ ہوں۔

درحقیقت کووڈ 19 کے مقابلے میں کسی ٹریفک حادثے میں موت کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے مگر اس وبائی بیماری نے ہمارے دماغ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

اس بیماری سے ڈر، ذہنی تشویش اور غم جیسی کیفیات درحقیقت ہمیں اپنی موت کو یاد دلاتی ہے۔

ایسا امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے۔

اسکڈمور کالج کے سماجی نفسیات کے پروفیسر شیلڈن سولومن کے مطابق جب ہمارے شعور میں حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ اس بیماری کے نتیجے مین ہماری ہوسکتی ہے تو بہت زیادہ دہشت کا غلبہ طاری ہوسکتا ہے۔

ویسے تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہر انسان کو ایک دن مرنا ہے، مگر پھر بھی کسی طرح لوگوں کو یقین نہیں ہوتا کہ وہ مر سکتے ہیں۔

اسی پہلو پر پروفیسر شیلڈن سولومن، ایریزونا یونیورسٹی کے پروفیسر جیف گرین برگ اور کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس فزنسکی نے گزشتہ 2 دہائیوں تک کام کیا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ جب لوگوں کو اپنی موت کی یاد آتی ہے تو متعدد رویے سامنے آتے ہیں اور یہ سب ہمارے اختتام کی تردید کرتے ہیں۔

گزشتہ سال ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ہمارا دماغ ہمیں ابدی نیند کے خیال سے دور رکھنے کا کام کرتا ہے۔

تحقیق میں میں دریافت کیا گیا کہ دماغ ایسی ڈھال کا کام کرتا ہے جو لوگوں کو موت کے خوف سے دور رکھتا ہے اور وہ دنیا سے چلے جانے کو صرف دوسرے افراد کو پیش آنے والے واقعے کو طور پر دکھاتا ہے۔

جریدے نیورو امیج میں شائع تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ہمارا دماغ یہ قبول نہیں کرتا کہ موت سے ہمارا تعلق بھی ہے، یہ ایک بنیادی میکنزم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب دماغ ایسی معلومات کو حاصل کرتا ہے جو اس فرد کی موت کے بارے میں ہوں، تو وہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ یہ قابل اعتبار نہیں اور ہمیں اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔

موت کے خیالات سے بچانے کا یہ دماغی میکنزم موجودہ لمحے میں زندہ رہنے والوں کے لیے ضروری ہوتا ہے اور تحفظ کا یہ خیال ممکنہ طور پر بچپن سے ہمارے ذہن میں پیدا ہوجاتا ہے۔

مگر یہ میکنزم اس وقت متاثر ہوتا ہے جب لوگوں کا مرنا روزمرہ کا معمول بن جائے، کسی پیارے کی موت یا ڈاکٹر کے دفتر میں کوئی ٹیسٹ، یا کوئی عالمی وبا، تو اس ذہنی تردید کو برقرار رکھنا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔

ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ موت کا خوف ذہن میں بسنے پر لوگوں کے مختلف ردعمل سامنے آتے ہیں، جیسے خود کو محفوظ رکھنے کی شدید خواہش (کورونا وائرس کے دوران فیس ماسک پہننا یا ہاتھوں کو دھونا)، مکمل تردید (وائرس کو سازشی نظریہ قرار دینا، یا خود کو یہ بتانا کہ آپ کا کوئی جاننے والا اس سے بیمار نہیں ہوا یا آپ تو نوجوان اور صحت مند ہیں) یا ذہن بھٹکانا۔

شیلڈن سولومن کا کہنا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران خریداری کی شرح میں اضافے اور ٹی وی دیکھنے کا دورانیہ بڑھنے پر حیران نہیں۔

انہوں نے کہا 'ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ موت کی یاد دہانی سے خود کو بچانے کا قابل پیشگوئی نتیجہ ہے'۔

کورونا وائرس کی وبا پہلا موقع نہیں جسے دیکھ کر لوگوں کو موت یاد آرہی ہے، گزشتہ دہائی میں لاکھوں افراد بیماریوں، قدرتی آفات اور مختلف وجوہات کے نتیجے میں چل بسے اور متعدد کو کسی پیارے کے کھونے کے تجربے کا بھی سامنا ہوا۔

مگر کورونا وائرس کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد گھروں تک محدود ہوگئے یا اب بھی ہیں، جس کے نتیجے میں سکون پہنچانے والا معمول متاثثر ہوا اور موت کی تردید کرنے والے مشاغل رسائی سے باہر ہوگئے۔

ایسے افراد جو عارضی یا مستقل طور پر روزگار سے محروم ہوگئے، ان میں موت کی یاد دہانی بلاک کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی۔

پروفیسر جیف گرین برگ نے بتایا 'جب آپ جسمانی خطرے سے خود کو بچانے کے لیے لاک ڈاؤن میں جاتے ہیں، تو اس سے روزمرہ کے وہ معمولات متاثر ہوتے ہیں جو ہمیں نفسیاتی طور پر دنیا میں تحفظ کا احساس دلاتے ہیں'۔

انہوں نے مزید بتایا 'جب لوگ معمول کے کام نہیں کرپاتے، وہ باہر نہیں جاپاتے اور اور دوستوں اور ساتھیوں سے کٹ جاتے ہیں، تو نفسیاتی سیکیورٹی کے لیے خطرہ پیدا ہوتا ہے'۔

پورٹ لینڈ یونیورسٹی کے فلسفے کے پروفیسر جیمز بیلی کا ماننا ہے کہ یہ میکنزم اگر عارضی طور پر تھم جاتا ہے تو ہمیں اچانک موت کے امکان کا سامنا ہوتا ہے، یعنی ایسی حقیقت سے جس کو ہم بمشکل ہی قبول کرتے ہیں، جو ہماری شخصیت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوتا ہے۔

یہ دھچکا اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں اس حقیقت کا احساس ہوتا ہے کہ ایک دن ہمارا وجود دنیا سے مٹ جائے گا اور یہ جھٹکا ہمارے معمولات کو بدل دیتا ہے۔

انہوں نے کہا 'کھ افراد کے لیے کووڈ 19 سے اموات کی حقیقت ایسا ہی جھٹکا ثابت ہوا، دیگر کے لیے یہ تبدیلی روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے سے آئی'۔

پروفیسر جیف گرین برگ کا کہنا تھا کہ اب اسے دھچکا قرار دیں یا موت کی یاد دہانی، یہ مکمل طور پر منفی عنصر نہیں، کیونکہ اس سے عقائد اور رویوں پر ہمارا یقین مزید بڑھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے مواقعوں پر بدترین اور بہترین کچھ بھی ہوسکتا ہے جب موت کا خیال شعور کے قریب ہو، لوگ اچھی دنیا میں دیرپا اشتراک کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔

شیلڈن سولومن نے کچھ تحقیقی رپورٹس کی جانب اشارہ کیا جن کے مطابق کچھ افراد موت کے خیال سے زیادہ منکسر المزاج اور شکرگزار ہوجاتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں