فیس ماسک اور سماجی دوری کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے ضروری کیوں؟

03 اکتوبر 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — اے ایف پی فوٹو

کورونا وائرس کی وبا کو اب 9 ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اور اس دوران سائنسدانوں نے اس سے جڑے متعدد اسرار جان لیے ہیں، مگر ایک سوال اب بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے کہ کیا کسی مریض میں وائرس کی مقدار یا وائرل لوڈ یہ تعین کرتا ہے کہ وہ کتنا بیمار ہوگا؟

اگر عام فہم کو مدنظر رکھا جائے تو اس کا جواب ہاں ہونا چاہیے، یعنی زیادہ وائرل لوڈ سے سنگین نتیجہ سامنے آتا ہے، مگر کورونا وائرس اکثر اس اصول پر عمل کرتا نظر نہیں آتا۔

تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں وائرل لوڈ کی مقدار کے علامات والے یا بغیر علامات والے مریضوں پر اثرات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔

مگر اب بھی ایک وجہ موجود ہے جس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وائرل لوڈ کی مقدار بیماری کی شدت سے جڑی ہوتی ہے۔

امریکا کی وائنی اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریاافت کیا گیا کہ ڈیٹوریٹ میڈیکل سینٹر میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ اوسط وائرل لوڈ کی مقدار میں کمی آئی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کووڈ 19 کی شدت معتدل ہوتی گئی۔

تحقیق میں شامل ڈاکٹر پرانھتارتی چندر شیکھر نے بتایا 'وبا کے آغاز میں لوگ زیادہ وائرل لوڈ کے ساتھ آرہے تھے، زیادہ افراد کو ہسپتال میں داخل کیا جارہا تھا، بہت زیادہ لوگ مررہے تھے، مگر وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ اموات، ہسپتال میں داخلے کی تعداد کم ہوگئی جبکہ مریضوں میں وائرل لوڈ کی مقدار کم ہوگئی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک یا سماجی دوری سے پہلی بار متاثر ہونے والے لوگوں میں وائرس کی مقدار میں کمی آرہی ہے۔

اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کم وائرل لوڈ کے نتیجے میں اموات کی شرح میں کمی آرہی ہے۔

تاہم محققین کا کہنا تھا کہ کسی حتمی نتیجے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر مونیکا گاندھی جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھی، نے بتایا کہ نتائج بہت حوصلہ افزا اور اہم ہیں۔

انہوں نے کہا 'تحقیقی رپورٹس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ وائرل لوڈ کی مقدار میں کمی آئی ہے اور یہ اموات کی شرح میں کمی سے منسلک ہے، مگر یہ پہلی تحقیق ہے جس میں منظم طریقے سے اسے ثابت کیا گیا ہے، وائرل لوڈ میں کمی سے بیماری کو کنٹرول کرنے کی صلاحت میں بہتری کا امکان بڑھتا ہے جبکہ شدید بیمار افراد کی تعداد میں کمی آسکتی ہے'۔

کسی مریض میں وائرل لوڈ اور اس کے اثرات پر تحقیق بہت مشکل ہے کیونکہ محققین کی جانب سے لوگوں کو جان بوجھ کر وائرس سے متاثر نہیں کیا جاسکتا، تو ماہرین نے پہلے سے بیمارا افراد کے معائنے پر انحصار کیا۔

اس مقصد کے لیے محققین نے اپریل کے شروع سے جون کے شروع میں ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کے ناک اور حلق کے سواب سے وائرل لوڈ کے نمونے لیے۔

700 سے زائد نمونوں میں محققین نے دریافت کیا گیا کہ وقت کے ساتھ مریضوں کے اوسط وائرل لوڈ میں کمی آتی گئی۔

تحقیق کے پہلے ہفتے لگ بھگ 50 فیصد نمونوں میں بہت وائرل لوڈ کی شرح نہ تو بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم، جبکہ 25 فیصد نمونوں میں بہت زیادہ وائرل لوڈ دریافت کیا گیا جبکہ باقی میں یہ شرح کم تھی۔

مگر جب تحقیق 5 ویں ہفتے میں داخل ہوئی تو نمونوں کی اکثریت یا 70 فیصد میں وائرل لوڈ کی شرح کم رہی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بہت زیادہ وائرل لوڈ والے مریضوں کو سنگین نتائج کا سامنا ہوا۔

تحقیق کے مطابق کم یا معتدل وائرل لوڈ والے 14 فیصد مریض ہلاک ہوئے جبکہ زیادہ وائرل لوڈ والے مریضوں میں یہ شرح 50 فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔

تاہم محققین نے تسلیم کیا کہ اس حوالے سے مزید کام کی ضروت ہے کیونکہ تحقیق کسی حد تک محدود تھی۔

مگر شواہد یہ واضح طور پر ثابت ہوا کہ فیس ماسکس اور سماجی دوری سے اموات کی شرح میں کمی آتی ہے۔

کئی بار تو فیس ماسک اور سماجی دوری سے بیماری کو مکمل طور پر دور رکھنے میں مدد ملتی ہے مگر یہ بھی امکان ہے کہ ان کے نتیجے میں وائرس کی کم مقدار لوگوں تک پہنچتی ہے، جس سے جسم میں وائرل لوڈ کی مقدار بھی کم رہتی ہے۔

جب لوگ کم وائرل لوڈ سے متاثر ہوتے ہیں تو ان کا مدافعتی نظام بھی زیادہ جارحانہ انداز سے ردعمل ظاہر نہیں کرتا، جس سے بیماری کی معتدل علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر مونیکا گاندھی کا کہنا تھا کہ کم وائرل لوڈ سے متاثر ہونے والے افراد میں اموات کی شرح بھی کم محسوس ہوتی ہے، جس سے توقع ملتی ہے کہ ہم اس وائرس کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر فیس ماسک اور سماجی دوری جیسی تدابیر کو اپناتے ہوئے، کم از کم کسی ویکسین کی دستیابی تک۔

تبصرے (0) بند ہیں