لاہور ہائیکورٹ: 6 سال بعد سزا یافتہ شخص توہین رسالت کے الزام سے بری

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
عدالت عالیہ نے مختصر فیصلہ جاری کیا—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
عدالت عالیہ نے مختصر فیصلہ جاری کیا—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائیکورٹ (ایل ایچ سی) نے مبینہ توہین رسالت پر سزائے موت کے ملزم ایک مسیحی شخص کو 6 سال بعد بری کردیا۔

واضح رہے کہ اس واقعے پر بادامی باغ میں مسیحی اکثریتی علاقے جوزف کالونی میں 100 سے زائد گھروں کو نذرآتش کردیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرل اور جسٹس سید شہباز علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ایک مختصر حکم میں ساون مسیح کی ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کو منظور کرلیا۔

درخواست گزار کی قانونی ٹیم کے رکن ندیم انتھنی نے ڈان کو بتایا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی جاری نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ 8 مارچ 2013 کو شاہد عمران کی شکایت پر ساون کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کیا گیا تھا، بعد ازاں ایک سال تک طویل ٹرائل چلنے کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج نے 27 مارچ 2014 کو انہیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت موت کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کو قتل کرنے والا شخص جیل منتقل

بعد ازاں 2014 میں دائر کی گئی اپیل میں مؤقف اپنا گیا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے عام طور پر مجرمانہ انصاف کے بنیادی اصولوں اور خاص طور پر اسلامی انصاف کے اصولوں کو نظرانداز کیا، مزید یہ کہ ٹرائل کورٹ نے ریکارڈ پر ثبوتوں کو نہ پڑھنے اور غلط پڑھنے میں مواد کی بے ضابطگی کی جس سے انصاف کا قتل ہوا۔

سزایافتہ شخص نے دوران ٹرائل اعتراض اٹھایا کہ اس کے خلاف الزامات اس سازش کا حصہ تھے جو بادامی باغ لوہا بازار میں ہوئی تھی کیونکہ وہ جوزف کالونی کی زمین خریدنے میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن رہائیشوں نے ان کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا۔

اپنے اعتراض میں انہوں نے کہا کہ مبینہ واقعے کے بعد مقامی علما کی جانب سے مشتعل کیے گئے سیکڑوں لوگوں نے جوزف کالونی پر حملہ کردیا اور مسیحوں کے 100 سے زائد گھروں کو نذرآتش کردیا، پولیس کی جانب سے حملہ آوروں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت مقدمات درج کیے گئے لیکن بعد ازاں تمام ملزمان ’عدم ثبوت‘ کی بنیاد پر بری ہوگئے۔

اپنی درخواست میں ساون نے اعتراض کیا کہ ٹرائل کورٹ نے شکایت کنندہ کے اس دوسرے مؤقف کی بنیاد پر سزا سنائی جو واقعے کے 8 روز بعد ابتدائی بیان میں خلا کو پر کرنے کی کوشش میں ضمنی بیان کے طور پر ریکارڈ کروایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے استغاثہ کے کیس میں ایک سنگین غلطی کو بھی نظر انداز کیا کہ مبینہ واقعے کی ایف آئی آر 33 گھنٹوں کی ’غیر واضح‘ تاخیر کے ساتھ درج ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشتگردی عدالت نے توہین مذہب کے ملزم کے قتل کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ ٹرائل کورٹ ’جھوٹی‘ کہانی کا عدالتی نوٹس لینے میں بھی ناکام رہی جس میں شکایت کنندہ نے الزام لگا تھا کہ انہوں نے حضرت محمد ﷺ کے خلاف ’اچانک توہین آمیز کلمات ادا کرنا شروع کردیے‘۔

اس میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ نے کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت درخواست گزار کے بیان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا۔

اپیل کے مطابق استغاثہ آزاد اور ناقابل معافی شواہد کی بنیاد پر کیس کو ثابت کرنے میں ناکام رہا کیونکہ یہ مکمل تضادات اور غیرمصدقہ ثبوتوں سے بھرا ہوا تھا۔


یہ خبر 07 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں