سندھ ہائیکورٹ: وکیل کی ’جبری گمشدگی‘ پر سیکریٹری دفاع طلب

اپ ڈیٹ 07 اکتوبر 2020
عدالت نے  ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر وفاقی فریقین کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر وفاقی فریقین کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ کے ڈویژن بینچ نے ایک وکیل کی مبینہ جبری گمشدگی کے معاملے پر سیکریٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں 14 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عبدالملک گدی اور جسٹس عدنان الکریم پر مشتمل عدالت عالیہ کے بینچ نے حیدرآباد ڈسٹرک بار ایسوسی ایشن (ایچ ڈی بی اے) کے رکن ایڈووکیٹ محب علی لغاری کی گمشدگی سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے حیدرآباد کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کی جانب سے متاثرہ شخص کی بازیابی کے لیے پولیس کی کوششوں سے متعلق جمع کروائی گئی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر وفاقی فریقین کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سے 'لاپتا' انسانی حقوق کے کارکن سارنگ جویو گھر پہنچ گئے

سندھ بار کونسل (ایس بی سی) کے نائب چیئرمین حیدر امام رضوی بطور خاص عدالت میں دلائل دینے کے لیے پیش ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق ایڈووکیٹ محب علی لغاری 4 ستمبر کو حیدرآباد سے اپنے گاؤں واپس آرہے تھے کہ انہیں کچھ افراد زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔

اغوا کاروں نے جب ایڈووکیٹ محب علی کا راستہ روکا تو ان کی موٹر سائیکل پر ان کی اہلیہ اور بچے بھی سوار تھے، اہلیہ نے کہا کہ اغوا کار بظاہر کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار لگ رہے تھے۔

ایڈووکیٹ حیدر امام رضوی نے نشاندہی کی کہ گزشتہ 10 سال کے دوران متعدد وکلا کو ٹارگٹ حملوں میں قتل کیا گیا ہے اور اب انہیں اغوا کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ محب علی لغاری لاپتا افراد سے متعلق ایک کیس میں سارنگ جویو (جنہیں اٹھایا گیا تھا لیکن بعد میں چھوڑ دیا گیا) کے شریک درخواست گزار تھے اور شاید اس لیے انہیں اغوا کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ہر لاپتا شخص کا معاملہ ریاست سے نہیں جوڑا جاسکتا، ڈی جی آئی ایس پی آر

انہوں نے متعدد مرتبہ بینچ پر سیکریٹری دفاع اور انٹر سروسز انٹیلیجنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سینئر افسر کو اس معاملے میں طلب کرنے پر زور دیا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے وزارت دفاع کے قانونی افسر 2 لیفٹیننٹ کمانڈر جمشید گل کی ذریعے ایک خط ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے پاس جمع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ ’وزارت کے انتظامی کنٹرول کے ماتحت کام کرنے والے اداروں مثلاً آئی ایس آئی اور ایم آئی کو محب علی لغاری نامی لاپتا شخص کے ٹھکانے سے متعلق پوچھی گئی معلومات جمع کروانے کا کہا گیا ہے‘۔

افسر نے کہا کہ معلومات موصول ہونے پر عدالت کو فوری طور پر آگاہ کیا جائے گا، ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے 8 ہفتوں کی مہلت بھی طلب کرلی۔

اس معاملے میں فریق بنے کی درخواست دائر کرنے والے ایچ ڈی بی اے جنرل سیکریٹری خدا بخش لغاری نے کہا کہ وہ عدالتی حکم پر تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:چیئرمین نیب اور آئی جی سندھ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں طلب

ان کے مطابق انہوں نے جے آئی ٹی کو کہا کہ اگر اس شخص کو ایجنسیز نے نہیں اٹھایا تب بھی اس کی بازیابی کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

اے اے جی اللہ بچاہو سومرو نے محکمہ داخلہ کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا جس کے تحت جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی، جس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، سی آئی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور پاکستان رینجرز کے نمائندے شامل ہیں اور اس کی سربراہی ایس ایس پی حیدرآباد کررہے ہیں۔


یہ خبر 7 اکتوبر 2020کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں