امریکا کے ڈیٹوریٹ میڈیکل سینٹر میں 3 ماہ تک کام کرنے والے ایل زین نے غور کیا کہ مئی کے مقابلے میں اب کورونا وائرس کے مریض پہلے کے مقابلے میں کم بیمار ہورہے ہیں۔

وہاں سے 4 ہزار میل دور شمالی اٹلی کے محقق چائرہ پیوبیلی نے بھی یہی نتیجہ نکالا۔

اسپین کے وبائی امراض کے ماہر رافیل کینٹن بھی اس تبدیلی پر حیران ہیں اور گزشتہ ماہ اپنے طبی مرکز میں مریضوں کی کم تعداد کا ذکر کرتے ہوئے کہا 'یہ بالکل مختلف ہے'۔

دنیا بھر میں نوول کورونا وائرس کا مرکز بننے والے مقامات پر اموات کی شرح میں کمی آئی ہے حالانکہ یہ بیماری اب ایک نئی وبا کی شکل میں تیزی سے پھیلنے لگی ہے۔

سائنسدان اس حوالے سے تو پراعتماد ہیں کہ یہ تبدیلی حقیقی ہے مگر اس کی وجوہات اور اس کے برقرار رہنا بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کے وبائی امراض کے ماہر جوشوا بارکوس کے مطبق 'یہ ایک ٹرینڈ ہے یا کچھ اور، کسی کو معلوم نہیں'۔

اس وبا کے آغاز سے ہی شرح اموات طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

چین میں ابتدائی رپورٹس کے مطابق یہ شرح 7 فیصد تھی مگر اس کی بنیاد ہسپتالوں میں زیرعلاج رہنے والے مریض تھے اور جب یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی تو ماہرین کا ماننا تھا کہ شرح اموات 2 سے 3 فیصد کے قریب ہے۔

اب امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے مطابق یہ شرح 0.65 فیصد ہے جس میں بغیر علامات والے مریض اور معتدل کیسز جیسے عناصر کو آفیشل اعدادوشمار کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

جوشوا بارکوس زور دیتے ہیں کہ کم تخمینے کے باوجود لاکھوں اموات کا امکان ہے، کیونکہ امریکا میں اس وقت کورونا وائرس کے کیسز کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ اور وہاں اموات بھی کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے 20 فیصد سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہوئی ہے۔

جوشوا بارکوس نے کہا کہ اس وقت جب ہم وبا کے نئے مرحلے میں داخل ہورہے ہیں، یعنی سردیوں کا آغاز ہورہا ہے جبکہ دفاتر اور تعلیمی ادارے کھل رہے ہیں، تو ابھی کہنا مشکل ہوگا کہ کیسز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ شرح اموات موجودہ سطح پر برقرار رہ سکے گی، کیونکہ نوجوان اس بیماری کو اپنے بزرگوں تک پھیلاتے ہیں۔

طبی عہدیداران شرح اموات میں کمی کی متعدد وجوہات بتاتے ہیں، جیسے اب نوجوان اس کا زیادہ شکار ہورہے ہیں جن کی قوت مدافعت صحتیابی میں مدد دیتی ہے۔

اسی طرح بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ سے کیسز کی جلد تشخیص ہورہی ہے اور علاج کی حکمت عملیاں بھی بہتر ہوئی ہیں۔

مگر کچھ محققین کا خیال ہے کہ کہانی بس یہاں تک ہی محدود نہیں۔

ایک نمایاں مگر فی الحال غیرمصدقہ خیال ابتدائی تحقیق میں سامنے آیا تھا کہ جس کے مطابق ہم نے انسانیت میں کورونا وائرس کے خطرات کا تخمینہ درست نہیں لگایا اور آبادی کے ایک حصے کو پہلے ہی جزوی طور پر اس کے خلاف مدافعت حاصؒ ہے، ممکنہ طور پر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز، بچپن کی ویکسینیشن یا کسی اور وجہ سے۔

ایک اور امکان جسے اہم قرار دیا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا ماحول تبدیل ہوا ہے یعنی موسم، رویے یا بذات خود وائرس۔

بیشتر وائرس کی ہلاکت خیزی کی صلاحیت بتدریج گھٹنے لگتی ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں جیسے میزبانوں کی کمی، وائرس میں تبدیلیاں جو اسے کم جان لیوا بناتی ہیں، نئے طریقہ علاج یا ویکسینز۔

ماہرین کے مطابق نوول کورونا وائرس کے ساتھ بھی ایسا ضرور ہوگا، مگر یہ یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کب تک ہوگا اور جب تک مزید کتنی ہلاکتیں ہوں گی۔

مگر بیشتر سائنسدانوں کو شک ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں، اس کی بنیاد جینیاتی سیکونسنگ ریسرچ ہے۔

ایک خیال حالیہ دنوں میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے جس کو تقویت 2 تحقیقی رپورٹس سے ملی ہے۔

ایک تحقیق ڈیٹوریٹ میڈیکل سینٹر کے ایل زین اور دوسری اٹلی سے سامنے آئی جن کو ستمبر کے آخر میں یورپین سوسائٹی آف کلینیکل مائیکروبائیولوجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز میں پیش کیا گیا۔

ان کے نتائج میں کہا گیا کہ سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال سے لوگوں تک پہنچنے والے وائرس ڈوز کی مقدار کم ہوئی ہے، جس کا تنیجہ بیماری کی کم شدت کی شکل میں نکلا ہے۔

اس وقت جب ایل زین اور دیگر ڈاکٹر یہ تحقیقات کررہے ہیں کہ مریضوں میں کووڈ 19 کی شدت کیوں کم ہورہی ہے، تاہم انہوں نے ایک نکتہ دریافت کیا ہے جس میں وقت کے ساتھ ڈرامائی تبدیلی آئی ہے اور وہ ہے وائرل لوڈ۔

گرمیوں کے آغاز میں 708 مریضوں کے علاج کے دوران ان میں اوسط وائرل لوڈ (جسم میں وائرس کی مقدار کو جانچنے کا پیمانہ) کی جانچ پڑتال نیسل سواب کے ذریعے ہفتہ وار بنیادوں پر کی گئی۔

بیشتر وبائی امراض جیسے ایبولا، ایچ آئی وی/ایڈز اور ہیپاٹائٹس میں وائرل لوڈ جتنا زیادہ ہوتا ہے، نتیجہ اتنا زیادہ بدتر نکلتا ہے۔

ایل زین اس تحقیق کے نتائج میں امید کی کرن دیکھتے ہیں، جیسے کیا یہ کورونا وائرس کی شدت میں کمی کے لیے اپنائے جانے والے اقدامات میں کامیابی حاصل ہورہی ہے؟

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی وبائی امراض کی محقق مونیکا گاندھی نے اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابتدائی وائرل لوڈ کم ہو تو اس بات کا امکان ہے کہ لوگوں کے جسم اس سے زیادہ موثر طریقے سے لڑنے کے قابل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ وائرل انفیکشن کی روک تھام کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں اس کی شدت کم ہوئی ہے۔

اموات کی شرح کا پیمانہ

کورونا وائرس کے متعدد رازوں میں سے ایک اور وہ بھی سب سے اہم ہے یعنی ایک فرد میں اس بیماری سے موت کا خطرہ ہے۔

چیچک میں یہ امکان 10 فیصد ہوتا ہے، ایبولا میں 50 فیصد، ریبیز میں لگ بھگ سو فیصد، جو اسے دنیا کا سب سے جان لیوا وبائی مرض بناتا ہے۔

کورونا وائرس میں یہ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ وقت، ملک، خطے، عمر اور دیگر عناصر کے باعث ہر جگہ یہ شرح ڈرامائی حد تک مختلف ہے۔

جونز ہوپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی کے امیش ادلجا وضاحت کرتے ہیں 'آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں یہ ڈیٹا اور اعدادوشمار کا غلط استعمال ہے، جو کافی حد تک غلط اور کئی بار گمراہ کن ہوتے ہیں'۔

اموات کی شرح کی جانچ پڑتال کے مختلف پیمانے ہیں، جن میں سب سے زیادہ اہمیت ہسپتالوں یا حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار ہوتے ہیں یا مصدقہ کیسز کی اموات کی شرح۔

آسان الفاظ میں ان اعدادوشمار کی بنیاد ایسے مریض ہوتے ہیں جن میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی، مگر مجموعی کیسز میں وہ مریض شامل نہیں ہوتے جن بیماری کی علامات نظر نہیں آتیں یا شدت اتنی کم ہوتی ہیں کہ ان کا ٹیسٹ بھی نہیں ہوتا، تو اس کی وجہ سے صرف مصدقہ کیسز کی شرح اموات بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

کچھ ماہرین کے خیال میں دنیا کے مختلف ممالک میں شرح اموات میں فرق کی ایک جزوی وجہ ٹیسٹنگ بھی ہے، یعنی جتنے زیادہ افراد کے ٹیسٹ ہوں گے، اتنے ہی زیادہ کیسز کی تصدیق ہوگی اور اموات کی شرح کم ہوجائے گی۔

رافیل کینٹن کے مطابق جب اسپین میں کورونا وائرس کی وبا عروج پر تھی تو وہ روزانہ 500 پی سی آر ٹیسٹ کرتے تھے، مگر اب یہ تعداد 5 گنا سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے بتایا 'ایسا نظر آتا ہے جیسے اب مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، مگر ایسا صرف زیادہ ٹیسٹنگ کی وجہ سے ہے'۔

یونائیٹڈ کنگڈمز ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر رینش پرمار اس سے اتفاق کرتے ہیں 'برادری میں بیماری کی تعداد کا تخمینہ بہت کم لگایا گیا اور اس کے مطابق ٹیسٹ نہیں ہوئے'۔

وبائی امراض کے ماہرین کی جانب سے ہر ایک لاکھ افراد میں اموات کی شرح کو باریک بینی سے دیکھا جارہا ہے، کیونکہ اس شرح کا انحصار ٹیسٹنگ کی صلاحیت پر نہیں، جبکہ یہ خطوں یا ممالک میں اعدادوشمار کے موازنے کے لیے کارآمد ہے۔

مچال کے طور پر فلو کے نتیجے میں ہلاکتوں کی شرح 0.1 فیصد ہے اور اس طرح کورونا وائرس فلو سے 6 گنا زیادہ جان لیوا سمجھا جاسکتا ہے۔

امیش ادلجا نے اس بارے میں بتایا 'میرے خیال میں لوگ یہ احساس نہیں کررہے کہ ایک بڑے نمبر کی چھوٹی شرح بھی ایک بڑے نمبر پر مشتمل ہوتی ہے'۔

دوسری لہر

کورونا وائرس کی شدت میں کمی کی ابتدائی رپورٹس مئی کے آخر میں سامنے آئی تھیں اور ان پر کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اٹلی کے شہر میلان کے سان ریفایلی ہاسپٹل کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو نے 31 مئی کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا 'حقیقت تو یہ ہے کہ طبی لحاظ سے یہ وائرس اب اٹلی میں موجود نہیں'۔

ان کا کہنا تھا 'گزشتہ 10 دن کے دوران سواب ٹیسٹوں میں جو وائرل لوڈ دیکھا گیا وہ ایک یا 2 ماہ قبل کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے'۔

انہوں نے پہلی بار شواہد فراہم کیے تھے کہ وائرل لوڈ میں کمی آرہی ہے، تاہم اس موقع پر عالمی ادارہ صحت اور دیگر ماہرین نے ان کا دعویٰ مسترد کردیا تھا۔

مگر وقت کے اتھ کچھ سائنسدان اموات کی شرح میں کمی اور وائرل لوڈ گھٹنے کے ڈیٹا کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔

اگست میں طبی جریدے جاما میں ہیوسٹن میتھوڈسٹ کے ماہرین کا ایک خط شائع ہوا جس میں کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر کے مریضوں میں نمایاں فرق کو رپورٹ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری لہر 16 مئی سے 7 جولائی تک تھی جس میں پہلے کے مقابلے میں کم تعداد (20 فیصد) کو آئی سی یو کی ضرورت پڑی جبکہ 13 مارچ سے 15 مئی کے دوران پہلی لہر میں 38 فیصد مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

اسی طرح دوسری لہر کے مریضوں نے کم وقت ہسپتال میں گزارا جو کہ 4.8 دن تھا جو پہلی لہر کے مریضوں میں اوسطاً 7.1 دن تھا۔

مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ دوسری لہر کے مریضوں میں اموات کی شرح 5.1 فیصد تھی جو پہلی لہر کے مریضوں میں 12.1 فیصد تھی۔

کورونا وائرس سے زیادہ شرح اموات کا شکار ہونے والے 53 ممالک اور خطوں کے ڈیٹا کے تجزیے میں ملتے جلتے رجحان کو شناخت کیا گیا۔

ستمبر میں جریدے ٹرانس باؤنڈری اینڈ ایمرجنگ ڈیزیز میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 80 فیصد ممالک اور خطوں میں اس بیماری کی دوسری لہر کے دوران اموات کی شرح کم رہی۔

تحقیق میں اس کے متعدد امکانات کا ذکر کیا گیا جس کے نتیجے میں اموات کی شرح کم ہوئی، جیسے زیادہ کمزور افراد پہلے ہی اس بیماری کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔

اسی طرح یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ ماہرین دوسری لہر کے لیے زیادہ بہتر طریقے سے تیار تھے، جبکہ اس دوران زیادہ تر کم عمر افراد بیماری سے متاثر ہوئے اور وہ بھی زیادہ بہتر ماحول میں یعنی گرم موسم کے دوران۔

محققین کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد اس وقت محدود ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ اوپر درج امکانات قابل قبول ہیں، ایک یا 2 عناصر کی بجائے میزبان، وائرس اور ماحول کا تال میل وبا کی خصوصیات کا تعین کرتا ہے اور یہ کورونا وائرس کے لیے حقیقت محسوس ہوتا ہے'۔

وائرل لوڈ اس وائرس کے چند پراسرار پہلوؤں میں سے ایک ہے۔

اب دنیا بھر میں عام دستیاب پی سی آر ٹیسٹوں میں وائرس کی موجودگی کا ہاں یا نہیں میں سادہ جواب دیا جاتا ہے، مگر حال ہی سائنسدانوں میں دریافت کیا کہ لوگوں میں وائرس کی مقدار اہمیت رکھتی ہے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ نیگیٹو پی سی آر ٹیسٹ، جس میں معلوم ہوتا ہے کہ جسم میں وائرل لوڈ صفر تک پہنچ گیا ہے، سے عندیہ ملتا ہے کہ مریض اسے آگے لوگوں تک منتقل نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے کہ عام طور پر 72 گھنٹوں میں 2 نیگیٹو پی سی آر ٹیسٹ کو بنیاد بناکر لوگوں کو بیماری سے پاک قرار دیا جاتا ہے۔

دوسری جانب زیادہ وائرل لوٖڈ کا مطلب اس بیماری کا تیزی سے پھیلنا ہے۔

مگر ابھی تک یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ وائرل لوڈ کس حد تک مریض کی بیماری کے دورانیے پر اثرانداز ہوتا ہے۔

فلو پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج مریضوں میں زیادہ وائرل لوڈ بدترین نتائج کا باعث نہیں ہوتا، مگر مرس یا سارس جیسے کورونا وائرسز میں زیادہ وائرل لوڈ موت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ثابت ہوا تھا۔

وائرل لوڈ پر اٹلی میں ہونے والی نئی تحقیق میں نوول کورونا وائرس اور زیادہ وائرل لوڈ سے موت کے خطرے کے تعلق کو ظاہر کیا گیا۔

ایمرجنسی روم میں زیرعلاج 373 مریضوں میں دریافت کیا گیا کہ مارچ سے مئی کے دوران وائرل لوڈ کی سطح میں کمی آئی، جس کے نتیجے میں آئی سی یو میں داخلے کی شرح بھی نمایاں حد تک کم ہوکر مئی میں صفر تک پہنچ گئی۔

اٹلی کے ایک اور محقق پیوبیلی نے ستمبر میں ایک تحقیقی مقالے میں کہا تھا کہ لاک ڈاؤن اقدامات نے نہ صرف متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی لانے میں مدد کی بلکہ اس سے بیماری کی شدت پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔

ایل زین کی تحقیق میں زیادہ براہ راست شواہد دریافت کیے گئے جن سے معلوم ہوا کہ وائرل لوڈ کی کمی سے اموات کی شرح بھی کم ہوئی، تاہم ان نتائج کو فی الحال ابتدائی تصور کیا جارہا ہے، کیونکہ تحقیقی ٹیم کی جانب سے ابھی بھی دیگر عناصر جیسے مختلف ٹریٹمنٹس کا تجزیہ کیا جارہا ہے، تاکہ اس تعلق کی تصدیق کی جاسکے۔

تحقیق کے پہلے ہفتے میں 25 فیصد مریضوں میں وائرل لوڈ زیادہ تھا، 50 فیصد میں نہ بہت زیادہ اور نہ بہت کم جبکہ 25 فیصد میں کم تھا۔

تحقیق کے 5 ویں ہفتے میں زیادہ وائرل لوڈ والے مریضوں کی تعداد 12 فیصد جبکہ چھٹے ہفتے میں کسی بھی مریض میں وائرل لوڈ زیادہ نہیں رہا۔

زیادہ وائرل لوڈ والے گروپ میں اموات کی شرح 45 فیصد، درمیانے وائرل لوڈ والے گروپ میں 32 فیصد اور کم لوڈ والے مریضوں میں 14 فیصد رہی۔

محققین کا کہنا تھا کہ زیادہ وائرل اور اموات کی شرح میں تعلق اتنا واضح تھا کہ وہ اسے چیک کرنے کے لیے لیبارٹری واپس گئے اور وہاں کئی بار اپنے آلات کو چیک کیا، مگر کوئی فرق دریافت نہیں کرسکے۔

ایل زین کے مطابق 'یہ واضح طور پر امکان یا غلطی نہیں تھی'۔

امریکا اور یورپ میں حالیہ ہفتوں میں کیسز کی شرح بڑھی ہے، اگرچہ اموات ماضی کے مقابلے میں کم ہے مگر کھ ماہرین کا خدشہ ہے کہ ممالک کو سست رفتار مگر زیادہ مستحکم دوسری لہر کا سامنا ہوسکتا ہے۔

اگر یہ وائرس دوبارہ معمر افراد میں پھیلا، جو متعدد حلقوں کے مطابق ہوکر رہے گا، تو اموات کی شرح ایک بار پھر اوپر کی جانب جاسکتی ہے۔

دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب ان پابندیوں کی واپسی کا انتباہ دیا جارہا ہے جن کو حالات بہتر ہونے پر ختم کردیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں