موجودہ عہد ٹیکنالوجی کا قرار دیا جاتا ہے مگر اس کا مثبت کے بجائے منفی استعمال زیادہ ہورہا ہے اور ان میں سے ایک قسم ڈیپ فیک بھی ہے جو کسی بھی شخص کی زندگی برباد کرسکتی ہے۔

ڈیپ فیک تصاویر یا ویڈیوز ایسے ہوتے ہیں جن میں نظر آنے لوگ وہ کہہ یا کررہے ہوتے ہیں جو انہوں نے کبھی کیا نہیں ہوتا اور اس مقصد کے لیے تصاویر کا کافی ڈیٹا درکار ہوتا ہے تاکہ حقیقی نظر آنے والی فوٹیج یا تصویر تیار ہوسکے۔

اور اب دریافت کیا گیا ہے کہ میسجنگ ایپ ٹیلی گرام میں ایسے بوٹس متحرک ہیں جو صارفین کی درخواست پر اس ٹیکنالوجی پر مبنی جعلی نامناسب تصاویر تیار کرتے ہیں۔

درحقیقت ان بوٹس کے ذریعے زیادہ تر خواتین کو ہی ہدف بنایا جاتا ہے جن کی عام تصاویر سوشل میڈیا سے اٹھا کر فراہم کی جاتی ہیں، جن کو ڈیپ فیک کے ذریعے بے لباس تصاویر میں بدل دیا جاتا ہے۔

یہ انکشاف ایک سیکیورٹی کمپنی سنسیٹی نے کیا جس نے اسے ویژول تھریٹ انٹیلی جنس قرار دیا ہے خصوصاً ڈیپ فیکس کے پھیلاؤ کے حوالے سے۔

اس کمپنی کے محققین نے جولائی 2020 تک ایک لاکھ سے زائد تصاویر دریافت کیں جو ٹیلی گرام کے پبلک چینیلز سے تیار ہوکر شیئر ہوئیں (یعنی یہ تعداد بہت زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ جولائی کو گزرے اب 3 ماہ ہوچکے ہیں)۔

ٹیلی گرام کے ان پبلک چینیلز کے بیشتر صارفین کا تعلق روس یا اس کے ارگرد کے ممالک سے ہے جبکہ دی ورج کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے بیشتر چینیلز اب بھی متحرک ہیں۔

ڈیپ فیک تیار کرنے والے یہ بوٹس مفت استعمال کیے جاسکتے ہیں مگر ان کی تیار کردہ جعلی عریاں تصاویر واٹر مارک کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر صارف چند سینٹس ادا کرکے مکمل تصاویر حاصل کرسکتا ہے۔

مثال کے طور پر ایک ڈالر 28 سینٹس کے عوض ایک صارف بغیر واٹر مارک کی سو تصاویر 7 دن میں حاصل کرسکتا ہے۔

سنسیٹی کی جانب سے ٹیلی گرام سے رابطہ کرکے اس طرح کے مواد کی تیاری کی اجازت دینے کے حوالے سے سوال کیا گیا مگر کمپنی نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

ان تصاویر کو تیار کرنے والے سافٹ ویئر کو ڈیپ نیوڈ کے نام سے جانا جاتا ہے جو گزشتہ سال جون میں انٹرنیٹ پر ایک ویب سائٹ کی شکل میں نمودار ہوا تھا، مگر بہت زیادہ میڈیا کوریج پر یہ کہہ کر بند کردیا گیا کہ لوگ اس کا بہت زیادہ غلط استعمال کرسکتے ہیں۔

تاہم یہ سافٹ ویئر اب بھی پس منظر میں پھیل رہا ہے اور سنسیٹی کا کہنا ہے کہ اسے اوپن سورس ٹورنٹنگ ویب سائٹس پر دریافت کیا جاسکتا ہے۔

اب اسے ٹیلی گرام بوٹس کے ذریعے استعمال کیا جارہا ہے جس سے کریٹیرز کو آمدنی بھی ہورہی ہے۔

اب بھی لوگ تصاویر کو ڈیجیٹل طریقے سے بدل لیتے ہیں مگر اس ایپ کے ذریعے یہ کام کوئی بھی 2 یا تین کلک پر کرسکتا تھا اور اسے کسی قسم کی محنت کی ضرورت بھی نہیں تھی۔

سنسٹی کے سی ای او گیورریگو پیٹرنی نے بتایا کہ نمایاں فرق ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، اس سے پہلے لوگوں کو اس طرح کے پروگرام استعمال کرنے کے لیے ایک پروگرامر اور کمپیوٹر کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی تھی، مگر اب کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں بس ایک بوٹ ہی ایسا کرسکتا ہے۔

کمپنی کے مطابق ان تصاویر کو خواتین کو بلیک میل، ہراساں اور رقم حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور متاثرہ افراد کے لیے صورتحال سے نمٹنا بھی آسان نہیں ہوتا۔

گیوریگو پیٹرنی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسے شواہد تو موجود نہیں کہ بوٹس کی تیار کردہ تصاویر کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا، مگر ہمارا ماننا ہے کہ ایسا ہورہا ہے، یہ ٹیکنالوجی کسی بھی فرد کی عزت اور تحفظ کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں