جسٹس عیسیٰ کیس: سپریم کورٹ نظرثانی درخواستوں پر کل سے سماعت کرے گی

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2020
جسٹس قاضی فائر عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائر عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے سینئر جج ہیں—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے تفصیلی فیصلے کے بعد اب سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک 7 رکنی بینچ 19 جون کے مختصر فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں پر بدھ (28 اکتوبر) سے سماعت کا آغاز کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آفس کی جانب سے جاری کاز لسٹ کے مطابق لارجر بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل ہے۔

یہ تمام 7 ججز وہی ہیں جنہوں نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کے لیے دائر مختلف آئینی درخواستوں کا فیصلہ کیا تھا اور اکثریتی فیصلہ بھی جاری کیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست

عدالت عظمیٰ میں دائر نظرثانی درخواستوں میں خود جسٹس عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد آصف ریکی، پنجاب بار کونسل کے نائب چیئرمین شاہنواز اسمٰعیل، سینئر ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کی درخواست کی ہے۔

اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیرضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔

خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ کے 7 ججز نے مختصر حکم میں پیراگرافس 3 سے 11 کے ذریعے ریفرنس کالعدم قرار دے دیا تھا لیکن وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی دستخط شدہ رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کو جمع کروائیں، جس میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں سے لندن کی 3 جائیدادوں کی خریداری کے ذرائع آمدن سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے بعد کمشنر ان لینڈ ریونیو کی کارروائی کی تفصیلات شامل ہوں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل اپنے ازخود دائرہ کار کے اختیار کے تحت آئین کے آرٹیکل 209 کے مقاصد کے لیے کوئی ایکشن/کارروائی شروع کرسکتی ہے۔

مختصر فیصلے کے پیراگرافس 13 سے 14 کے مطابق جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم کردیا تھا جس کے ساتھ ہی جسٹس عیسیٰ کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری شوکاز نوٹس بھی غیرمؤثر ہوگیا تھا۔

ادھر اپنی نظرثانی درخواست میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اسے روکنے کی استدعا کی کیونکہ ان کے بقول ایف بی آر کمشنر ان کے خلاف نامناسب انداز میں جلدی سے کارروائی کر رہے۔

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ ’آف شور ایویڈر‘ اور ’آف شور اثاثے‘ کی اصطلاح 30 جون 2019 کو شائع ہونے والے فنانس ایکٹ 2019 مین پہلی مرتبہ متعارف کروائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ انہوں نے 2018 اور 2019 کے لیے اپنے ٹیکس ریٹرنس میں 3 آف شور جائیدادیں ظاہر کی تھی، جو قانون میں تبدیلی کے بعد ان کے لیے ضروری تھا کہ وہ اسے ظاہر کریں اور اس تاریخ کے بعد سے انہیں ٹیکس سال یا ٹیکس ریٹرن سے متعلق کوئی ایک نوٹس بھی نہیں موصول ہوا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل (3) 184کے تحت 19 جون کا حکم جاری کرتے ہوئے مؤثر طریقے سے لوگوں کا ایک طبقہ تشکیل دیا اور اس طبقے میں شامل انفرادی شہریوں کے نجی اور خفیہ معاملات کو ’عوامی اہمیت‘ کے معاملات کے طور پر بیان کیا۔

علاوہ ازیں اکثریتی تفصیلی فیصلہ جو جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا اس میں قرار دیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کہ جواب دہندگان (فریقین) نے جسٹس عیسیٰ کے ٹیکس ریکارڈز تک غیرقانونی رسائی حاصل کی۔


یہ خبر 27 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں