ڈینیئل پرل قتل کیس: بری ہونے والوں کو ’مسلسل‘ حراست میں رکھنے پر سندھ ہائی کورٹ برہم

اپ ڈیٹ 05 نومبر 2020
عدالت نے سیکریٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر کو وضاحت کے لیے عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت جاری کی — فائل فوٹو:ڈان
عدالت نے سیکریٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر کو وضاحت کے لیے عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت جاری کی — فائل فوٹو:ڈان

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس میں ہائی کورٹ کے حکم کے تحت 7 ماہ قبل رہائی پانے والے افراد کو مسلسل حراست میں رکھنے پر صوبائی حکام پر شدید برہمی کا اظہار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے محکمہ داخلہ اور پولیس کو ہدایت کی کہ وہ بری ہونے والے احمد عمر سعید شیخ، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل پر الزامات اور حراست میں رکھنے کے بارے میں 26 نومبر تک ایک مفصل رپورٹ پیش کریں۔

درخواست گزاروں نے ان کو حراست میں رکھنے کے خلاف اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت 4 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا تھا کہ ابتدائی طور پر انہیں 2 اپریل کو رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید 90 دن کی توسیع کردی گئی۔

دوران سماعت ہائی کورٹ کے بینچ نے صوبائی محکمہ داخلہ اور پولیس پر بغیر کسی مناسب وجہ کے مستقل طور پر درخواست گزاروں کو حراست میں رکھنے پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ انہوں نے اور سیکریٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر کو وضاحت کے لیے فوری طور پر عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت جاری کی۔

بعد ازاں سیکریٹری داخلہ ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ درخواست گزار ماضی میں دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ تھے اور دہشت گردی میں بھی ملوث تھے۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیے کہ بینچ حال کی بات کر رہا ہے اور اگر درخواست گزاروں کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ صوبائی حکام کے پاس متعلقہ قوانین کے تحت نظربندی کے احکامات جاری کرنے کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں فیصلہ جاری کیا تھا۔

جسٹس کے کے آغا نے سیکریٹری سے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ ہے تو عدالت عظمیٰ کے حکم کی کاپی پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ کا ملزمان کی رہائی روکنے کے حکم میں توسیع سے انکار

انہوں نے مزید وقت طلب کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں