کمالا ہیرس نے پہلی خاتون امریکی نائب صدر منتخب ہو کر رکاوٹیں توڑ دیں

08 نومبر 2020
کمالا ہیرس ممکنہ طور پر عدالتی نامزدگیوں کے حوالے سے صدر کی مشیر اعلیٰ ہوں گی — فوٹو: رائٹرز
کمالا ہیرس ممکنہ طور پر عدالتی نامزدگیوں کے حوالے سے صدر کی مشیر اعلیٰ ہوں گی — فوٹو: رائٹرز

امریکا صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن کی کامیابی کے ساتھ کمالا ہیرس نے پہلی خاتون، پہلی سیاہ فام امریکی اور پہلی ایشیائی امریکی کے طور پر نائب صدر بن کر تاریخ رقم کردی۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق 56 سالہ کمالا ہیرس کو سال 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے پہلے انتخاب کے طور پر دیکھا جارہا ہے، کیونکہ 78 سالہ جو بائیڈن دوسری مدت کے لیے انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔

ایڈیسن ریسرچ اور امریکا کے بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورکس نے ہفتہ کو غیر سرکاری حتمی نتائج کی بنیاد پر کمالا ہیرس کی کامیابی کے امکانات ظاہر کیے تھے۔

کیلی فورنیا سے منتخب ہونے والی سینیٹر کمالا ہیرس سان فرانسسکو کی پہلی خاتون ڈسٹرکٹ اٹارنی کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں اور وہ کیلی فورنیا سے منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون اٹارنی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: کمالا ہیرس امریکی نائب صدر کی حیثیت سے رکاوٹیں توڑنے کیلئے تیار

کمالا ہیرس کا کریمنل جسٹس کا تجربہ جو بائیڈن کی انتظامیہ کو مساوات اور پولیسنگ کے مسائل حل کرنے میں سودمند ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ رواں برس امریکا میں اس حوالے سے شہریوں کا شدید احتجاج بھی ریکارڈ ہوا تھا۔

وہ ممکنہ طور پر عدالتی نامزدگیوں کے حوالے سے صدر کی مشیر اعلیٰ ہوں گی۔

کمالا ہیرس کی والدہ اور والد بالترتیب بھارت اور جمیکا سے ہجرت کرکے امریکا آئے تھے اور وہ امریکی صدارتی انتخاب 2020 کی نامزدگی میں پہلی امریکی خاتون صدر بننے کے لیے امیدوار تھیں اور ان کا مقابلہ جو بائیڈن سمیت پارٹی کے دیگر امیدواروں سے تھا۔

تاہم وہ صدارتی دوڑ سے گزشتہ برس دسمبر میں باہر ہوگئی تھیں، جس کی وجہ ماضی میں اٹارنی جنرل کی حیثیت سے متعدد فیصلے اور مہم کے دوران صحت سے متعلق بیانات تھے۔

جو بائیڈن نے کمالا ہیرس کو اپنے خلاف دیے گئے سخت بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے رواں برس اگست میں نائب صدر کے لیے نامزد کیا تھا اور کمالا ہیرس نے بھی اپنی قدر میں اضافہ کیا اور خاص کر خواتین، ترقی پسند اور سیاہ فام ووٹرز کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔

کمالا ہیرس نے سینیٹ اور وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کی دوڑ کے لیے فنڈ ریزنگ کا ایک مضبوط نیٹ ورک تشکیل دیا تھا اور یہ جو بائیڈن کی مہم کے اختتامی مہینوں کے دوران ریکارڈ فنڈز جمع کرنے میں بھی کارآمد ثابت ہوا۔

ان کی نامزدگی ڈیموکریٹس کے حامیوں اور پارٹی کے لیے فنڈز دینے والوں میں ایک جوش کا باعث بن گئی تھی۔

ہیلری کلنٹن کی 2016 کی صدارتی مہم چلانے والے ڈیموکریٹک اسٹریٹجسٹ جوئیل پائین کا کہنا تھا کہ ‘کمالا ہیرس نے جو بائیڈن کے نائب کے طور پر ہر لمحے بہتر امیدوار ہونے کا ثبوت دیا ہے کیونکہ وہ ہر رنگ و نسل کے ڈیموکریٹس کو متحد کرنے کی صلاحیت اور اکثریتی علاقوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں‘۔

مزید پڑھیں: جو بائیڈن نے افریقی نژاد سینیٹر کمالا ہیرس کو نائب صدر کیلئے امیدوار نامزد کردیا

ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت

مخالفین کا الزام تھا کہ کمالا ہیرس کیلی فورنیا کی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے پولیس کی کارروائیوں اور غلط سزاؤں کے خلاف زیادہ کام نہیں کر پائی تھیں، یہ الزامات صدارتی نامزدگی کے لیے رکاوٹ بن گئے تھے لیکن جو بائیڈن کی نائب کی مہم میں کارگر ثابت نہ ہوئے۔

کمالا ہیرس نائب صدر کے طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے بائیڈن کے حامیوں کے خدشات کو ختم کرنے کے لیے بھی پرعزم دکھائی دیں۔

انہوں نے نسبتاً چھوٹے عہدوں اور سیاسی معاملات میں خود کو ٹیم کے بہترین حصے کے طور پر منوایا ہے اور اس کو خبروں میں زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔

کمالا ہیرس نے اکتوبر میں مائیک پینس سے نائب صدارتی مکالمے میں کہا تھا کہ ’جو بائیڈن اور میں ایک جیسے ماحول میں بڑھے ہوئے ہیں جہاں اقدار، سخت محنت اور عوامی خدمت اور عوام کے وقار کے لیے جدوجہد کی اہمیت تھی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں