ترکی کا جرمنی پر بحری جہاز کی 'غیر قانونی' تلاشی کا الزام

24 نومبر 2020
جرمن مسلح افواج ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز پر اتری —  فوٹو: اے ایف پی
جرمن مسلح افواج ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز پر اتری — فوٹو: اے ایف پی

ترکی نے جرمن بحریہ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے لیبیا جانے والے ترکی کے مال بردار جہاز کی 'غیر قانونی طور پر' تلاشی لی ہے۔

ترکی کا کہنا ہے کہ جرمنی نے غیر قانونی قدم اس لیے اٹھایا تاکہ وہ لیبیا پر اقوام متحدہ کی جانب سے عائد ہتھیاروں کی پابندی پر عملدرآمد یقینی بنا سکے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق انقرہ کی جانب سے اعتراضات سامنے آنے کے بعد یورپی یونین آپریشن آئرنی، جسے شمالی افریقہ کے تنازعات کا شکار علاقوں میں ہتھیاروں کی فراہمی کو روکنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، کا کہنا تھا کہ تلاشی کے لیے ترکی کو راضی کرنے کے لیے 'نیک نیتی' سے کام لیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مشرقی بحیرہ روم میں تنازع: یورپی یونین کی ترکی کو پابندیوں کی دھمکی

ترکی کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ جرمنی کے ہیمبرگ فریگیٹ نے اجازات کے بغیر جزیرہ نما پیلوپونیسَس میں یونان کی بندرگاہ پر تجارتی مال بردار جہاز روزلائن کو روکا اور اس کی تلاشی لی۔

ترکی کے ٹیلی ویژن پر جہاز کے عملے کی جانب سے بنائی جانے والی ویڈیو کو بارہا نشر کیا گیا جس میں عملے کے ارکان اور جرمن مسلح فوجیوں کے درمیان جھگڑا ہوتے دیکھا گیا، جبکہ جرمن مسلح فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے جہاز پر اترے تھے۔

ترکی کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ جہاز میں رنگ اور دیگر انسانی ضرورت کا سامان لیبیا کی بندرگاہ مصراتہ لے جایا جارہا تھا۔

ترک وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ مداخلت نہ ہی ہمارے ملک کی رضامندی سے اور نہ ہی جہاز کے کیپٹن کی مرضی سے کی گئی تھی'۔

ترکی کے نائب صدر فواد اوکتائے کا کہنا تھا کہ 'میں اس غیر قانونی مداخلت کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں'۔

مزید پڑھیں: ترکی بحیرہ روم اور بحیرہ اسود میں اپنے حقوق کا دفاع کرے گا، طیب اردوان

وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ یورپی یونین اور اطالوی سفیروں کے ساتھ جرمنی کے سفارتخانے کے انچارج کو انقرہ میں وزارت خارجہ کی جانب سے طلب کیا گیا تھا اور غیر قانونی معائنہ پر احتجاج کرتے ہوئے سفارتی مراسلہ دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل 'بین الاقوامی قوانین کے خلاف' ہے جبکہ ترکی نے اپنا تلافی کا حق محفوظ کرلیا ہے۔

دوسری جانب یورپی یونین کی کمانڈ آپریشن اور برلن کے عہدیداروں نے کہا کہ ترکی نے جرمن فوجیوں کے بحری جہاز پر سوار ہونے کے بعد ہی اعتراض اٹھایا تھا۔

جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا 'ہر چیز پروٹوکول کے مطابق کی جارہی تھی'۔

یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کا بحیرہ اسود میں گیس کے ذخائر دریافت کرنے کا اعلان

یورپی یونین آپریشن آئرنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے 'ترکی کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے نیک نیتی سے کوششیں کی تھیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب ترکی نے جہاز کے معائنے کے لیے اجازت لینے کو واضح طور پر مسترد کیا تو آپریشن آئرنی نے ان سرگرمیوں کو معطل کردیا، جبکہ اس دوران ناجائز مواد کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

آپریشن آئرنی کی سرکاری ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ مشن اس وقت جہاز پر اجازت کے بغیر داخل ہونے کا حق رکھتا تھا جب نام نہاد 'دوستانہ رسائی' کی گئی۔

واضح رہے لیبیا میں پرتشدد واقعات کو ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے جب 2011 میں نیٹو کی حمایت یافتہ بغاوت کے ذریعے آمر معمر قذافی کو قتل کیا گیا تھا۔

لیبیا کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ نیشنل اکارڈ (جی این اے) کی حکومت کے حامی ترکی نے یورپی یونین مشن کے مؤقف کو جانبدارانہ قرار دیا اور کہا کہ یہ مشرق فورسز کے حق میں ہے، متحدہ عرب امارات، فرانس اور روس مشرقی فورسز کے حامی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں