’پارلیمنٹ میں 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا، آج کہہ رہے ہیں صرف 82 ہیں‘

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس نے سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس نے سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) تعیناتی کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا اور آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مبینہ طور پر جعلی ڈگری پر برطرف کیے جانے والے پائلٹ اور ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران سیکریٹری ایوی ایشن حسن ناصر جامی اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر عدالت عالیہ نے سیکریٹری ایوی ایشن ڈویژن حسن ناصر جامی کو سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ کئی ماہ سے خالی رکھنے پر طلب کیا تھا، ساتھ ہی عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی بلایا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سول ایوی ایشن کا مشتبہ لائسنسز پر عہدیداروں کو نوٹس

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اس عدالت نے ہمیشہ ایگزیکٹو کے کام کو ان پر چھوڑا ہے لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے، یہاں معاملہ قومی ایئرلائن کی ساکھ اور قومی وقار کا ہے، سیکریٹری بورڈ کا چیئرمین ہے اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں کہ چیئرمین کو ڈی جی کا چارج دیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ سول ایوی ایشن ایک اہم ترین ریگولیٹری اتھارٹی ہے، یہ بتائیں کہ کتنے پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان پارلیمنٹ کے فلور پر دیا گیا، کس نے ان 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بتایا، کیا ریگولیٹری اتھارٹی نے ان جعلی لائسنسز کے بارے میں بتایا؟

اس پر سیکریٹری سول ایوی ایشن کا کہنا تھا کہ جی، ایوی ایشن ڈویژن نے ہی یہ رپورٹ دی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایوی ایشن ڈویژن کا اس میں کوئی کردار نہیں، ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ ان 262 میں سے کتنے پائلٹس کے لائسنس درست نکلے۔

عدالتی استفار پر سیکریٹری سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ ہو چکے ہیں جبکہ مزید 32 کے لائسنس مشکوک ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر یہ بتائیں کہ 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان کیسے دیا گیا؟

دوران سماعت عدالتی استفسار پر سیکریٹری سول ایوی ایشن نے کہا کہ ڈی جی سول ایوی ایشن نے اس کی منظوری دی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی موجود ہی نہیں، اس کا چارج سیکریٹری کو کیسے دیا جا سکتا ہے، وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کرتی ہے اس کے پاس اضافی چارج دینے کا کوئی اختیار نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی گئی، قومی ایئرلائن کی ساکھ متاثر کی گئی، اس سے قبل عدالت نے ایسا ہی معاملہ وفاقی کابینہ کا احترام کرتے ہوئے ان کے پاس بھیجا تھا۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہونے کا بیان دیا گیا اور آج کہہ رہے ہیں کہ صرف 82 ہیں، اس معاملے پر انتہائی غفلت برتی گئی اور جعلی لائسنسز کا بیان دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی سی اے اے کا عہدہ خالی رکھنے پر سیکریٹری ایوی ایشن عدالت طلب

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت سیکریٹری کو ڈی جی کا عہدہ نہیں دے سکتی تھی وہ بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں، اتنے اہم ریگولیٹر ایسے چلیں گے تو وہی نتیجہ ہو گا جو ہوا، کوئی تو اس کا ذمہ دار ہو گا؟

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے سیکریٹری سے کہا کہ جن کے لائسنس جعلی ہیں ان کے نام سامنے لائیں، اس طرح ہمارے پوری دنیا میں ہزاروں پائلٹس کے لائسنس منسوخ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ڈی جی ایوی ایشن اور سیکریٹری کا چارج ایک شخص کے پاس نہیں ہو سکتا، کابینہ نے سیکریٹری کو ڈی جی ایوی ایشن کا اضافی چارج دیا، میں نے حکومت کو بتایا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ مستقل ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کب تک کی جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئندہ 2 سے 3 دن میں نئے ڈی جی ایوی ایشن تعینات کر دیے جائیں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے جو غیرقانونی اقدامات ہیں ان کا تحفظ کون کرے گا، آپ نے جو اقدامات لیے وہ سارے خلاف قانون ہیں، یہ عدالت ایگزیکٹو کا احترام کرتی ہے لیکن احتیاطاً کہہ رہی ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے غیرقانونی ہے، جو اقدامات قانون کے خلاف جائیں گے وہ غیرقانونی قرار دیے جائیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے 8 دسمبر تک ڈی جی سول ایوی ایشن کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

واضح رہے کہ سی اے اے کو قائم مقام ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے چلائے جانے کے خلاف ڈی جی سی اے اے کے عہدے کے لیے ایک اُمیدوار عمران اسلم نے درخواست دائر کی تھی، عمران اسلم ڈی جی آفس کے لیے شارٹ لسٹ ہونے والے اُمیدواروں میں شامل تھے، ان کا انٹرویو لیا جاچکا تھا لیکن اتھارٹی نے اس عمل کو روک دیا اور نئے سرے سے دوبارہ یہ عمل شروع کردیا۔

خیال رہے کہ 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا 150 'مشکوک لائسنس' والے پائلٹس کو کام سے روکنے کا فیصلہ

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

وزیر ہوابازی غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں مختلف بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے بھی پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کے واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں