نظر ثانی درخواستوں کے لیے 'ایک ہی بینچ' پر کوئی ابہام نہیں، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2020
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق ایک ہی بینچ کا مطلب ہے وہی ججز، جہاں تک قابل عمل ہیں - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق ایک ہی بینچ کا مطلب ہے وہی ججز، جہاں تک قابل عمل ہیں - فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: جسٹس سید منصور علی شاہ نے مشاہدہ کیا ہے کہ نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے لیے متعلقہ قوانین کے تحت 'ایک ہی بینچ' کا مطلب ہے کہ بینچ میں ججز کی وہی تعداد ہے جس نے پہلے تنازع کا فیصلہ کیا تھا۔

بینچ کی تشکیل میں 'ایک ہی بینچ' کا خیال قیاس آرائیاں ختم کردیتا ہے، ’ایک ہی بینچ‘ کا مطلب ہے وہی ججز، جہاں تک قابل عمل ہیں اور ججز کی ایک ہی تعداد، یعنی بینچ کی وہی عددی قوت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں۔

یہ مشاہدات 2 نومبر کے اکثریت کے فیصلے میں ایک متنازع نوٹ کا حصہ تھے جس میں سپریم کورٹ نے 13 اگست کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کا ایک سیٹ مسترد کردیا تھا جس میں اس نے وفاقی حکومت کو 400 ارب روپے سے زائد کے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) جو صنعتوں اور کمرشل اداروں سے 24 قسطوں کے بجائے 60 ماہ میں لینے کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا حکومت کو 3 ماہ میں نیا نیب قانون لانے کا حکم

تاہم قانونی ماہرین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں 18 نظرثانی درخواستوں کے سیٹ کے 6 ججز کے لارجر بینچ کی جانب سے سماعت سے ایک روز قبل اختلاف رائے جاری کرنے کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔

بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ سمیت تقریبا تمام درخواست گزاروں نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو خارج نہ کریں بلکہ انہیں لارجر بینچ کا حصہ ہونا چاہیے جو منگل سے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کا آغاز کرے گی۔

تینوں ججز بینچ کا حصہ تھے جنہوں نے 19 جون کے مختصر حکم کے تحت جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو منسوخ کردیا تھا۔

جی آئی ڈی سی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے یاد دلایا کہ ابتدائی طور پر ان نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے (جی آئی ڈی سی کیس میں) تین ججز کا بینچ کس طرح تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ میں مقدمات کی آن لائن سماعت

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے میں شاید سپریم کورٹ رولز 1980 کے XXVI رول 8 کا حکم، جس کے تحت نظرثانی کی درخواست کی سماعت کرنے کے لیے اسی بینچ کو نظرانداز کیا جانا ضروری ہے، کا خیال رکھا گیا اور اس کے بعد بینچ پر نظر ثانی کی گئی اور انہیں بینچ کا حصہ بنا دیا گیا جس سے یہ چار ججز کا بینچ ہوگیا۔

انہوں نے مشاہدہ کیا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر XXVI رول 8 کے معنی اور وسعت کے بارے میں وضاحت کی کمی ہے'۔

اختلافی نوٹ کو ختم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت 6 ماہ کے اندر شمالی-جنوب گیس پائپ لائن بچھانے پر کام شروع کرنے میں ناکام رہی تو جی آئی ڈی سی ایکٹ غیر مؤثر ہوجائے گا اور جمع کردہ سیس کی رقم ادائیگی کرنے والوں کو واپس کردی جائے گی۔

اسی طرح وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 25 کے پیش نظر گیس صارفین سے کسی بھی زمرے میں 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے زیادہ سیس وصول نہیں کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں