ویکسین ٹرائلز کیلئے نمونوں کا حجم تقریباً دگنا کردیا گیا

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2020
امید ہے کہ ٹرائل رواں برس کے اختتام پر مکمل ہوجائیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
امید ہے کہ ٹرائل رواں برس کے اختتام پر مکمل ہوجائیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت نے کووِڈ 19 ویکسین کے کلینکل ٹرائل کے لیے رضاکاروں کی تعداد کو تقریباً دگنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ مقامی آبادی کی شمولیت سے ہونے والی تحقیق کے نمونے کا حجم بہت معنی رکھتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس طرح ویکسین کے لیے رضاکاروں کی تعداد کو 10 ہزار سے بڑھا کر 18 ہزار کردیا گیا ہے تاہم یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ٹرائل رواں ماہ مکمل کرلیے جائیں گے تا کہ ویکسین کی رجسٹریشن کا عمل شروع کیا جاسکے۔

ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا وائرس سے 55 اموات جبکہ 3 ہزار 262 کیسز رپورٹ ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کی تیار کردہ ویکسین کے حتمی ٹرائلز میں پاکستان کی بھی شرکت

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ جامع تحقیق یقینی بنانے کے لیے نمونے کا حجم بڑھا دیا گیا، انہوں نے بتایا کہ اب تک 9 ہزار رضاکاروں کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ویکسین کے مختلف نسلوں پر مختلف اثرات/نتائج مرتب ہوتے ہیں اس لیے پاکستانی عوام پر ویکسین کی افادیت دیکھنا بہت بہتر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ٹرائلز کی رفتار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہمیں اُمید ہے کہ یہ رواں برس کے اختتام پر مکمل ہوجائیں گے۔

جیسا کہ برطانیہ نے کووِڈ 19 کے لیے ایک ویکسین رجسٹرڈ کرلی ہے ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ٹرائل مکمل ہوجائیں ویکسین کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: وہ ملک جہاں 10 لاکھ افراد کو تجرباتی کورونا ویکسین استعمال کرائی گئی

ڈاکٹر جاوید اکرم نے مزید کہا کہ ویکسین تحقیق مکمل ہونے کے بعد رجسٹرڈ کی جاتی ہے، ویکسین کو اس وقت رجسٹرڈ کیا جائے گا جب یہ ثابت ہوجائے کہ یہ پاکستانی قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔

گزشتہ برس اگست میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان نے ملک میں کووِڈ 19 کی ویکسین کے کلینکل ٹرائل کی منظوری دی تھی جس کے بعد تیاریاں شروع ہوگئی تھیں اور گزشتہ برس ستمبر میں پاکستان نے کووِڈ 19 ویکسین کے کلینکل ٹرائل شروع کردیے تھے۔

چنانچہ اب ملک کے مختلف شہروں میں ٹرائل جاری ہیں اور چین کے اشتراک سے تیار کردہ ویکسین یہ دیکھنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے کہ کیا اس سے 18 سال کی عمر سے زائد اور 60 سال سے کم عمر افراد میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتے ہیں؟

وزارت قومی صحت کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ پاکستان زیادہ تر چینی ویکسین پر توجہ دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا ویکسین کے جلد حصول کیلئے حکومت کے عالمی اداروں سے مذاکرات

ان کا کہنا تھا کہ حالانکہ 15 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے ہیں لیکن ہم کسی بھی دوا ساز کمپنی کو پیشگی ادائیگی کرنے سے گریزاں ہیں کیوں کہ ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ کونسی کمپنی ویکسین مارکیٹ میں سب سے پہلے لائے گی۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے وسائل محدود ہیں اس لیے ہم ان سے کھیلنا نہیں چاہتے، کسی قسم کی غلطی میں ہمیں ذمہ دار ٹھہرادیا جائے گا اور ہمیں تنقید کا سامنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں