نیب مقدمات میں ملزم کو 90 روز حراست میں رکھنے پر سپریم کورٹ کو تحفظات

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2020
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے اس شق کو ظالمانہ قراردیا— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے اس شق کو ظالمانہ قراردیا— فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کو ایک ملزم کو 90 روز کے لیے نظربند رکھنے کے لیے بااختیار بنانے والی متنازع دفعہ سپریم کورٹ کے ریڈار پر آگئی جب جمعرات کے روز جسٹس عمر عطا بندیال نے اس شق کو ظالمانہ اور ناانصافی پر مبنی قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب کے پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر کو معاونت کے لیے طلب کرنے والے جسٹس عمر عطا بندیل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر ریفرنس میں جسمانی ریمانڈ پر ایک ملزم کو 90 دن تک نظربند رکھنا ظلم اور ناانصافی ہے، اگلے سال جنوری میں اس کیس کی سماعت کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ

جسٹس عمر عطا بندیال، تین ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ بینچ کی سربراہی کر رہے تھے، جس نے نیب کی جانب سے پیش کی گئی 25 اپیلیں اٹھائی تھیں اور پشاور ہائی کورٹ کے 15 فروری 2017 کے فیصلے کے خلاف ان کو ملا دیا تھا۔

اس معاملے میں نیب کے ذریعے ملزمان کے خلاف متعدد ریفرنسز دائر کرنے کا خدشہ ہے، ان اپیلوں میں سے ایک فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سابق ڈائریکٹر جنرل ارشاد خان کی ہے جن پر 161 افراد کے جعلی اور بوگس دعوؤں کو منظوری دینے کے الزامات کا سامنا ہے، گرانٹ میں سے 5 کروڑ 96 لاکھ روپے کا غبن کیا گیا تھا جو مہمند ایجنسی میں سیکیورٹی آپریشنز کے باعث ان کے مکانات کو ہونے والے نقصان کی وجہ سے متاثرین میں معاوضے کے طور پر تقسیم کیے جانے تھے۔

قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 24 (ڈی) نیب کو کسی بھی ملزم کو 90 دن سے زیادہ کی مدت تک تفتیش اور تحقیق کے مقصد سے اپنی تحویل میں رکھنے کے لیے حراست میں دیتی ہے لیکن متعلقہ عدالت ملزم کو زیادہ سے زیادہ 15 دن حراست میں رکھنے کا ریمانڈ دے سکتی ہے اور اس کے بعد مزید ریمانڈ کے لیے عدالت کو تحریری طور پر وجوہات قلمبند کرنا ہوں گی جس کی نقل متعلقہ اعلیٰ عدالت کو بھجوانی ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’نیب کے اختیارات میں کمی سے ایف آئی اے کے کردار میں اضافہ ہوسکتا ہے‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نیب ملزم کو ہراساں نہ کرے اور اسے اپنے اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے جبکہ اسے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کے بجائے قوانین کے چاروں اہم نجات کو مدنظر رکھنا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ وائٹ کالر جرائم کے ملزم کے خلاف جس چیز کی ضرورت ہے وہ دستاویزی ثبوت ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے مشاہدہ کیا کہ نیب کو غیرجانبدارانہ طریقے سے اپنی اتھارٹی کا استعمال کرنا چاہیے اور فریقین کو اس سلسلے میں تحریری جوابات پیش کرنے کی ہدایت کی۔

جسٹس مظہر اکبر نقوی نے حیرت کا اظہار کیا کہ نیب نے متعدد ریفرنسز کے بجائے مکمل تحقیقات کے بعد ملزمان کے خلاف ایک بھی ریفرنس کیوں داخل نہیں کیا، انہوں نے روشنی ڈالی کہ فوجداری مقدمات میں صرف 40 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جاسکتا ہے لیکن قومی احتساب آرڈیننس میں 90 دن کا ریمانڈ صرف اس لیے فراہم کیا گیا ہے تاکہ بیورو کو ملزموں کے خلاف اپنی تفتیش مکمل کرنے کی اجازت دی جا سکے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ متعدد ریفرنسز میں ملزم کو ملوث کرنے کے بجائے نیب کو ایک ضمنی ریفرنس پیش کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: مجوزہ نیب قوانین: نجی شہری احتساب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہوں گے

نیب پراسیکیوٹر ناصر محمود موگل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وائٹ کالر جرم کے ملزم کے خلاف ثبوت کا پتا لگانا بہت مشکل ہے، ملزمان نے گرفتاری تک کبھی تعاون نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ لندن میں ایک اہم سیاستدان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات گزشتہ دو تین سالوں سے جاری ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرائل کورٹ متعدد الزامات کا سامنا کرنے والے کسی بھی ملزم پر ایک ہی مقدمے میں فرد جرم عائد کر سکتی ہے۔

قومی احتساب آرڈیننس کا سیکشن 17 (ڈی) احتساب عدالت کو الزام عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے اور اگر ملزم کو کئی سالوں کے دوران اسی طرح کے ایک سے زیادہ جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسے مقدمات کے لیے بھی اس پر ایک ٹرائل میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے، یہ پہلا موقع نہیں بلکہ نیب اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ سپریم کورٹ کی سنجیدہ نوعیت کی آپزرویشنز کا سامنا کر چکا ہے۔

20 جولائی کو جسٹس مقبول باقر نے سابق وزیر ریلوے اور مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت دیتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا کہ اگرچہ لوٹ مار، چوری اور بدعنوانیوں پر قابو پانا ایک نیک مقصد ہے لیکن اس کے لیے استعمال کردہ طریقہ کار قانون کے دائرہ کار میں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 کا نوٹی فکیشن جاری

فیصلے میں واضح کیا گیا تھا کہ کسی شخص کی گرفتاری ایک سنگین معاملہ ہے لیکن گرفتاری کے لیے طاقت کے بھرپور طریقے سے استعمال کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے ہیں لہٰذا، احتیاط، محتاط رویہ اور حساسیت کے ساتھ اسے استعمال کرنے کی ضرورت ہے، کسی شخص کی گرفتاری کے لیے ضروری ہے کہ بادی النظر میں ثبوتوں کا حوالہ دیا جا سکے اور جرم سے متعلق کافی قابل عمل مواد موجود ہو، فیصلے پر زور دیا گیا تھا کہ گرفتاری کے اختیارات کو جبر اور ہراساں کرنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کسی شخص کی آزادی سے متعلق مقدمات سے نمٹنے کے دوران ہمیں مجرمانہ فقہی اصول کی بنیاد کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فرد جرم ثابت ہونے تک بے قصور ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں