گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی سیل بنانے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2020
احتجاج میں اپوزیشن اراکین بھی شریک ہوئے—فوٹو: امتیار تاج
احتجاج میں اپوزیشن اراکین بھی شریک ہوئے—فوٹو: امتیار تاج

گلگت بلتستان کی اسمبلی کے سامنے خواتین کا تعلمیی اداروں اور دفاتر میں انسداد ہراسانی قوانین پر عمل نہ ہونے پر احتجاج کیا گیا اور جامعات، کالجوں اور اسکولوں میں انسداد ہراسانی سیل قائم کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا۔

ویمن رائٹس موومنٹ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خواتین نے پلے کارڈز اٹھا کر اپنے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں انسداد ہراسانی سیل بنایا جائے اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں خفیہ کیمرے نصب کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

مزید پڑھیں: گلگت: معذور خاتون سے گینگ ریپ کے 3 مجرمان کو سزائے موت سنادی گئی

مظاہرے میں شریک خواتین نے اسکولوں میں ہراسانی سے متعلق آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ خواتین میں عدم تحفظ کا احساس ختم کرنے کے لیے گلگت بلتستان ویمن ہراسمینٹ بل پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں جس سے خواتین کا استحصال ہورہا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے صوبائی صدر اور گلگت بلتستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف امجد ایڈووکیٹ نے بھی مظاہرے میں شرکت کی۔

امجد ایڈووکیٹ نے کہا کہ خواتین کے مطالبات جائز ہیں جن پر عمل درآمد کے لیے وہ اسمبلی کے اندر اور باہر اپنا کردار ادا کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان: 14 سالہ لڑکے کے ریپ اور قتل کے جرم میں 4 مجرمان کو سزائے موت

خیال رہے کہ گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت نے گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں معذور خاتون کو گینگ ریپ کا نشانہ بنانے والے 3 مجرمان کو سزائے موت اور 10، 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے 20 نومبر 2020 کو کیس خصوصی عدالت میں دائر کیا گیا تھا۔

عدالت نے یومیہ سماعت کے بعد 3 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور 10، 10 لاکھ جرمانے کی سزائیں سنائی جبکہ ایک ملزم کو عدم شواہد پر بری کر دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں