عباسی شہید ہسپتال میں کورونا یونٹ کو فنڈز کی عدم دستیابی کے سبب بندش کا سامنا

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2020
شہر کے تیسرے سب سے بڑے ہسپتال کے خصوصی یونٹ کے لیے مقامی انتظامیہ مالی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
شہر کے تیسرے سب سے بڑے ہسپتال کے خصوصی یونٹ کے لیے مقامی انتظامیہ مالی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے درمیان جہاں کراچی ملک کا ایک اہم ہاٹ سپاٹ شہری مرکز کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا ہے وہیں عباسی شہید ہسپتال (اے ایس ایچ) میں ایک 100 بستروں پر مشتمل کووڈ-19 ریسرچ سینٹر کے آپریشنز کے بند ہونے کا خدشہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عہدیداروں اور ذرائع نے بتایا کہ ایک ماہ قبل فعال ہونے والے شہر کے تیسرے سب سے بڑے ہسپتال کے خصوصی یونٹ کے لیے مقامی انتظامیہ مالی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مریضوں کے لواحقین میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جن کا ہسپتال میں علاج کیا جارہا ہے، ان میں سے 6 وینٹیلیٹرز پر ہیں جو وبائی مرض کے خلاف زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

**مزید پڑھیں: کچھ لوگوں میں کووڈ 19 کی شدت دیگر کے مقابلے میں سنگین کیوں ہوتی ہے؟**

ذرائع نے اس یونٹ کی تفصیلات اور امور کی موجودہ صورتحال سے متعلق بتایا کہ 'اے ایس ایچ میں کووڈ ۔19 متعدی بیماری اور ریسرچ سینٹر (آئی ڈی آر سی) ابتدائی طور پر جولائی 2020 میں قائم کیا گیا تھا اور اس سہولت کو اپ گریڈ کرنے میں ایک ماہ لگا تھا، اگست 2020 میں اس کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے میئر وسیم اختر نے کیا تھا اور آخر کار یہ 24 نومبر کو کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کے باضابطہ طور پر مرکز کا افتتاح کرنے کے بعد مکمل طور پر آپریشنل ہو گیا تھا، اس کے بعد سے یہاں مریض روزانہ آتے ہیں اور انہیں مفت علاج کے لیے داخل کیا جاتا ہے، اس مرکز میں عملے کے 75 ارکان ہیں جن میں ڈاکٹرز اور دیگر صحت ورکرز شامل ہیں جو 24 گھنٹے کام کرتے ہیں'۔

انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں 25 وینٹیلیٹرز ہیں، بائی پیپ مشینوں سے لیس 50 بستر ہیں جو کورونا وائرس کے لیے ایک اہم ترین سہولت سمجھی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ ادارہ ان متاثرہ افراد کی مدد کرتا ہے جنہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ یہ مشین ان کے پھیپھڑوں میں ہوا پمپ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بل گیٹس کی کورونا کی وبا کے خاتمے کے حوالے سے ایک اور پیشگوئی

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت ہسپتال میں متعدد مریض زیر علاج ہیں اور ان میں سے 6 افراد وینٹیلیٹرز پر ہیں، جہاں کیسز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے وہاں اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ مزید مریضوں کو وینٹیلیٹرز کی مدد کی ضرورت ہوگی'۔

تو پھر کیا ایسا ہوا جس نے صحت کی اہم سہولت کو اس صورتحال کی طرف دھکیل دیا ہے؟ جہاں یہ بندش کے قریب ہے اور اس وقت جب وبائی بیماری کی دوسری لہر صحت حکام کے لیے ایک سنگین چیلنج بن رہی ہے؟

ذرائع نے بتایا کہ بلدیاتی حکومت کے ہسپتال نے انتظامیہ کی مالی اعانت کے وعدے پر ایک ماہ سے بھی کم عرصہ قبل اس بڑے آپریشن کا آغاز کیا جسے انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا۔

ایک اور ذرائع نے بتایا کہ 'تمام ٹیسٹ، علاج اور دوائیں ہسپتال میں مفت فراہم کی جاتی ہیں، ہسپتال میں آپریشن کرنے کے لیے فنڈز نہیں ہیں لہذا کے ایم ڈی سی (کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج) کے انڈرگریجویٹ طلبہ کی فلاحی تنظیم کے ساتھ انتظامات کیے گئے، فیصلہ کیا گیا کہ کراچی انتظامیہ فلاحی تنظیم کے ذریعے برداشت کی جانے والی قیمت کو ادا کرے گی، طلبہ کی فلاح و بہبود کی تنظیم مریضوں کے لہے لیبز چلارہی ہے اور اپنی سہولیات سے ادویات کی فراہمی کررہی ہے، قریب ایک ماہ گزرنے کے بعد ہسپتال لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ایک پیسہ تنظیم کو ادا کرنے میں ناکام رہا ہے'۔

یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی، بلدیاتی حکومت کے ہسپتال کو دوسری طرف انسانی وسائل کے سنگین مسائل کا سامنا ہے جہاں اس کے ڈاکٹروں اور دیگر صحت ورکرز کی ایک بڑی تعداد کو گزشتہ چند ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں، یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی جانب سے احتجاج اور حکام کی جانب سے یقین دہانی، وبائی مرض کے دوران اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں