’انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں ریاست کی طرف سے ہوتی ہیں، الزام عدالتوں پر آتا ہے‘

اپ ڈیٹ 14 دسمبر 2020
عدالت عالیہ میں مختلف کیسز کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عالیہ میں مختلف کیسز کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ انصاف کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ریاست کی طرف سے ہوتی ہیں اور الزام عدالتوں پر آتا ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بڑھتے جرائم، کچہری کی حالت زار اور پروسیکیوشن برانچ کے قیام سے متعلق کیسز پر سماعت کی، جہاں ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وفاقی حکومت پر برہمی کا اظہار کیا اور وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر کو عدالت طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کی نظام انصاف پر شدید تنقید

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، انصاف کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ریاست کی طرف سے ہوتی ہیں اور الزام عدالتوں پر آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عدالت حکومت سے توقع کر رہی تھی، وفاقی دارالحکومت کو تو 'رول ماڈل' ہونا چاہیے، لیکن یہاں دہائیوں سے پروسیکیوشن برانچ نہیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے آئین پاکستان کا مسودہ دکھاتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ بتائیں یہ آئین کب آیا تھا؟

جس پر جواب دیتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ آئین 1973 میں آیا تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس آئین میں لکھا ہے جلد اور فوری انصاف ہر شہری کو فراہم کیا جائے گا، (تاہم) عدالتیں دیکھ لیں آپ نے کس حال میں بنا رکھی ہیں اور شہریوں کو وہاں کتنے مسائل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ جو رپورٹس جمع کرواتے ہیں ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں عملاً بتائیں کہ کیا کیا؟ 10 دن کا وقت ہے ہمیں کوئی عملی حل بتائیں ورنہ اعلیٰ ترین عہدیدار کو طلب کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کہا کہ مذکورہ معاملے میں مشیر داخلہ شہزاد اکبر 24 دسمبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہوں۔

خیال رہے کہ شہزاد اکبر موجودہ حکومت میں پہلے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب تھے جس کے بعد جولائی 2020 میں انہیں عمران خان کا مشیر برائے داخلہ و احتساب مقرر کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جلد انصاف کی فراہمی میں وکلا کا کردار بہت اہم ہے، چیف جسٹس

قانونی طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا عہدہ وفاقی وزیر اور معاون خصوصی کا وزیر مملکت کے برابر ہوتا ہے۔

یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے نظام انصاف پر تنقید کی ہو بلکہ اس سے قبل رواں سال ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ موجودہ نظام انصاف ’جرائم کو روکنے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکام‘ ہوگیا ہے کیوں کہ یہ نظام ’مسلسل انصاف کے قتل اور بظاہر تباہی کے دہانے پر ہے‘۔

عدالت نے کہا تھا کہ ’نظام انصاف کا مقصد مجرم کو سزا دینا ہے تاکہ جرم کو مؤثر طریقے سے قابو کیا جاسکے‘ لیکن ’ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ موجودہ صورتحال میں (نظام انصاف پر) یہ یقین مکمل طور پر گمراہ ہے‘۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ ’تمام شاخیں مثلاً عدلیہ اور مقننہ موجودہ حالات کی ذمہ دار ہیں جو یقیناً بدعنوانی اور انصاف کے مسلسل سنگین قتال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں