ریفرنسز منتقلی کا معاملہ: رجسٹرار آفس کے حکم کےخلاف زرداری کی اپیل منظور

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2020
سابق صدر آصف زرداری 4 کرپشن ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
سابق صدر آصف زرداری 4 کرپشن ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی نیب ریفرنس منتقلی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے حکم کے خلاف دائر اپیل کو منظور کرلیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آصف زرداری کی نیب ریفرنس کی کراچی منتقلی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے حکم کے خلاف دائر اضافی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت آصف زرداری کی جانب سے ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ نیب قانون کے سیکشن 16 اے کے تحت درخواست دائر کی ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمارا قانونی حق ہے کہ ریفرنسز کراچی کی احتساب عدالت منتقل کرنے کی درخواست دیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: رجسٹرار کی جانب سے آصف زرداری کی درخواستیں واپس کرنے کا اقدام چیلنج

انہوں نے کہا کہ رجسٹرار آفس نے ہماری درخواست مسترد کردی جس کے بعد نظر ثانی درخواست دائر کی، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نئی درخواست دائر کریں جس کو مقرر کر دیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وفاق سے نہیں بلکہ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں نیب ریفرنسز منتقل کرنے کا معاملہ ہے۔

بعد ازاں عدالت نے رجسٹرار آفس فیصلے کے خلاف آصف زرداری کی اپیل منظور کرلی اور سردیوں کی تعطیلات کے بعد کیس مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک کیس کی تیاری کر کے آئیے گا، ساتھ ہی کیس کی سماعت کو سردیوں کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردیا گیا۔

واضح رہے کہ آصف زرداری جعلی بینک اکاؤنٹس ریفرنس، پارک لین ای اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ ریفرنس، ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس اور توشہ خانہ کرپشن ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں۔

آصف علی زرداری نے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں زیر سماعت ان 4 بدعنوانی ریفرنسز کو کراچی کی احتساب عدالت منتقل کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھی۔

سینئر وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پریزائڈنگ افسر، سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف، عبدالغنی مجید، سابق سی ای او سمٹ بینک حسین لوائی کو فریق بنایا گیا تھا۔

ان درخواستوں میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ آصف زرداری کو ہمیشہ سے ہی ’جھوٹے اور من گھڑت‘ مقدمات میں شامل کرکے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور ’جھوٹے اور من گھڑت‘ مقدمات میں برسوں کے لیے جیل میں رکھا گیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا تمام ملزمان اور دستاویزات کراچی میں ہونے اور ریفرنس سے متعلق معاملات کا سندھ سے تعلق ہونے کے باوجود آصف زرداری کے خلاف ریفرنسز کو اسلام آباد منتقل کیا گیا۔

تاہم سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے ریفرنسز کو کراچی منتقل کرنے درخواست کو واپس کردیا تھا، سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے آبزرو کیا تھا کہ درخواستوں کو سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کے دوسرے جائزے کی ضرورت تھی لہٰذا ان درخواستوں کو نہیں سنا جاسکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے مقدمات کراچی منتقل کرنے کی آصف زرداری کی درخواست واپس کردی

جس کے بعد سابق صدر کی جانب سے رجسٹرار آفس کے فیصلے کے خلاف چیمبر اپیلیں دائر کی گئیں تھیں اور یہ اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ یہ قانون کے زمرے میں نہیں آتا ساتھ ہی یہ سپریم کورٹ کی جانب سے بیان کردہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔

نئی درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ یہ درخواست گزار کا آئینی حق ہے کہ وہ انصاف کے محفوظ انتظام کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے لیکن رجسٹرار کے حکم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپیل کرنے والے کے حق کو ادارہ جاتی سطح پر سلب کیا جارہا ہے۔

درخواستوں میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ درخواست کو ناقابل سماعت کہہ کر واپس کردینے کا عمل عدالتی کام سے متعلق ہے اور جسے مقننہ کی طرف سے یا پھر عدالتی طاقت کے کام کے استعمال کے لیے اختیار تفویض کرکے نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں یہ مدنظر رہے کہ احتساب عدالت 9 ستمبر کو توشہ خارنہ ریفرنس، 10 اگست کو پارک لین ای اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے مبینہ طور پر بے نامی جائیدادیں بنانے کے لیے منی لانڈرنگ کے الزامات جبکہ 5 اکتوبر کو ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس میں آصف زرداری پر فرد جرم عائد کرچکی ہے تاہم جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں فرد جرم کی کارروائی مؤخر کردی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں